میری بہت پیاری ساس

October 17, 2021

شادی کے بعد سسرال میں میرا اپنی ساس افشاں بیگم کے ساتھ اگرچہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا، وہ محض پانچ برس بعد ہی داغِ مفارقت دے گئیں، لیکن اُن کے ساتھ گزرے چند برس بھی مجھے بہت کچھ سکھا گئے، جو مَیں اپنے گھر میں نہیں سیکھ پائی تھی۔ مَیں تین بھائیوں کی اکلوتی بہن ہونے کی وجہ سے گھر بھر کی لاڈلی تھی، اس لیے احساسِ ذمّے داری سے کوسوں دور تھی۔ امّی، ابّو کو بھی زیادہ فکر نہ تھی کہ شادی کے بعد سگی خالہ کے ہاں ہی جانا ہے، جنہوں نے بہت چاہتوں سے مجھے مانگا تھا۔

رخصت ہوکر سسرال پہنچی، تو شروع ہی میں خالہ نے انتہائی شفقت اور پیار و محبت سے کھانا پکانا سکھایا۔ خصوصاً چاول، جو میں نے اپنے گھر میں کبھی پکائے ہی نہیں تھے، بڑے احسن طریقے سے نہ صرف ابالنے کا طریقہ بتایا، بلکہ گول چپاتی بنانے کے ساتھ دیگر انواع و اقسام کے پکوان بنانے کی تربیت بھی دی۔ غرض یہ کہ بہت پیار و محبت سے رفتہ رفتہ چیزوں کی دیکھ بھال، اُن کی حفاظت کا احساس میرے اندر جگایا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے، میں اکثر لاپروائی سے اپنے سونے کی انگوٹھیاں اِدھر اُدھر رکھ دیتی تھی، لیکن خالہ جیسے ہی دیکھتیں، فوراً اٹھا کر کسی محفوظ جگہ پر رکھ دیتیں اور پھر پیار سے مجھے توجّہ دلا کر کہتیں کہ ’’اپنی چیزوں کی حفاظت نہیںکرو گی، تو ان سے محروم بھی ہوسکتی ہو۔‘‘ ایک بار شامی کباب کے لیے ہرا مسالا (جو کہ پیاز، ہری مرچوں اور ہرے دھنیے، پودینے پر مشتمل ہوتا ہے) باریک باریک کترنے سے میرے ہاتھوں میں سخت مرچیں لگنے لگیں۔ مَیں تکلیف کے مارے بولائی بولائی پھرنے لگی، بس پھر کیا تھا، انہوں نے میرے ہاتھوں ر سرسوں کا تیل لگایا اور لیٹنے کو کہا اور پھر اس کے بعد کبھی ہری مرچیں کاٹنے نہ دیں۔

میری خالہ امّی انتہائی حسّاس دل، نرم مزاج اور محبّت و خلوص کا پیکر تھیں۔ اُن کی بے لوث محبتوں، چاہتوں کی وجہ سے مَیں اُن کے اتنا قریب ہوگئی تھی کہ اپنے ہر دُکھ، تکلیف کا اظہار اُن ہی سے کرتی۔ اُس وقت مَیں گھر کی بڑی اور اکلوتی بہو تھی اور مجھے یہ کہنے میںکوئی عار نہیں کہ مَیںاپنی ساس اور سُسر کی بے لوث محبّت ہی کی وجہ سے بڑی بہو کے فرائض ادا کرنے کے قابل ہوئی۔

شادی کے شروع کے مہینوں میں عجیب عجیب نقشوں والی کچّی پکّی روٹیاں بھی کھا کر انہوں نےکبھی ناگواری کا اظہار نہیں کیا۔ سُسرال میں مہمانوں کا بہت آنا جانا تھا، تو اس حساب سے برتن بھی بہت تھے۔ اُن سب کی حفاظت، چمچوں کو گن گن کر ان پر ربر بینڈ لگا کر رکھنا، برتنوں کو دھونے کےبعد سُکھا کر رکھنا، اسی طرح مہینے کا راشن خاص انداز سے محفوظ کرنا، پہلے پرانے مسالے الگ نکالنا، پھر نئے مسالے ڈالنا، تاکہ کیڑا نہ لگ جائے۔

یہ ساری باتیں مَیں نے اپنی ساس ہی سے سیکھیں۔ شروع شروع میں ان سب باتوں سے کافی اکتاہٹ بھی ہوتی، لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ میری ساس نے کتنے کم وقت میں مجھے اتنا کچھ سکھادیا۔ اب ان کے بتائے ہوئے طور طریقوں پر کام کرتی ہوں، تو بہت سارے مسائل سے بچی رہتی ہوں کہ چھوٹی چھوٹی باتیں اور تھوڑی سی محنت ہمیں بڑے نقصانات سے بچالیتی ہے۔

جب میری بیٹی انشال پیدا ہوئی، تو اُن کی خوشی دیدنی تھی۔ اُنھیں تو گویا ایک ننّھی سی دوست مل گئی۔ اُسے سنبھالنا، سلانا، کھلانا پلانا بس ہر دم اُسی کے ساتھ لگی رہتیں۔ چھوٹی سی انشال کو کھیل ہی کھیل میں پڑھانے کے ساتھ بہت کچھ سکھاتیں۔ مختلف دعائیں یاد کرواتیں، اُن کا پڑھانے کا انداز اتنا پیارا تھا کہ میری بیٹی کو آج بھی یاد ہے کہ دادی امّی نے ایسے لکھنا سکھایا تھا۔

اپنی پیاری سی ساس کے حوالے سے یادوں کے دریچوں میںجھانکتی ہوں، تو بہت سی باتیں نظروں کے سامنے آجاتی ہیں، جن کا احاطہ یہاں ممکن نہیں، بس مختصراً یہی کہہ سکتی ہوں کہ اُن کے جانے کے بعد احساس ہوا کہ ہم ایک انتہائی پیارے رشتے سے محروم ہوگئے ہیں۔ میری پیاری ساس واقعی خلوص و محبّت کا پیکر تھیں۔ اللہ پاک سے دُعا ہے کہ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے، آمین۔ (آمنہ آفاق، کراچی)