مہنگائی کا جن بےقابو

October 17, 2021

مہنگائی پر قابو پانے کی تمام حکومتی کوششیں اب تک بےنتیجہ رہی ہیں۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ بجلی کے نرخ میں ایک روپیہ 39پیسے فی یونٹ اضافے کے علاوہ ادارہ شماریات کے مطابق یوٹیلٹی اسٹوروں پر خوردنی تیل 110، گھی 49روپے تک مزید مہنگا ہو گیا ہے۔ پٹرول کی قیمت فوری طور پر ساڑھے 10روپے فی لیٹر بڑھا دی گئی ہے۔ ڈیڑھ سال پہلے چینی اور گندم اسکینڈل سامنے آئے اور تحقیقاتی کمیشن بنائے گئے تو قوم کو بتایا گیا کہ شوگر مافیا کے کرتا دھرتا تحقیقاتی عمل کو ناکام بنانے کے لئے چینی کے نرخ سو روپے تک لے جانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں مگر حکومت نے ان کے دباؤ کو خاطر میں نہ لا نے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ تاہم عملاً ہوا یہ کہ چینی کے نرخ بھی سو روپے فی کلو سے زیادہ تک جا پہنچنے اور شوگر مافیا کا بھی کچھ نہیں بگڑا۔ یہی معاملہ گندم اور آٹے کا رہا۔ تاہم گزشتہ روز وزیراعظم نے ایک بار پھر چینی کی ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی ہدایت دیتے ہوئے کہا ہے کہ شوگر ملوں کی نگرانی کے لئے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کا نفاذ یقینی بنایا جائے۔ ناجائز منافع خوروں کو عوام کا دشمن قرار دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ ریاست ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔ دوسری طرف پنجاب میں حکومت نے کسانوں کو گنے کی سابقہ مالی ادائیگیاں نہ کرنے والی شوگر ملوں کے خلاف کریک ڈائون کرتے ہوئے گرفتاریاں شروع کردی ہیں جسے شوگر مل ایسوسی ایشن کے سربراہ نے غیرقانونی اقدام قرار دیا ہے اور یہ سلسلہ بند نہ ہونے کی صورت میں یکم نومبر سے کرشنگ بند کردینے کا اعلان کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک میں مسلسل جاری ہمہ جہت مہنگائی کا سبب کیا واقعی صرف ناجائز منافع خوری ہے یا اس کے حقیقی اسباب کچھ اور ہیں۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ جب پیداواری عمل میں کلیدی کردار ادا کرنے والی بجلی، گیس، پٹرول، ڈیزل جیسی اشیا کے نرخ حکومت خود مسلسل بڑھاتی رہے تو تمام چیزوں کی لاگت پر اس کا منفی اثر مرتب ہونا لازمی ہے۔ دوسری طرف گزشتہ برسوں میں ملکی ضرورت کا لحاظ کیے بغیر متعلقہ وفاقی وزارتوں نے چینی اور گندم کو بڑے پیمانے پر برآمد کردیا اور جب ملک میں قلت ہوئی تو مہنگے داموں درآمد کرنا پڑا جس کے نتیجے میں ان اشیا کے مقامی نرخوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ ایل این جی بھی درآمد کے معاہدے مناسب وقت پر نہ کرنے کی وجہ سے مہنگے داموں خریدنا پڑی۔ منصب سنبھالنے سے پہلے موجودہ وزیر خزانہ کا دعویٰ تھا کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط مانے اور مہنگائی بڑھائے بغیر بھی مالی تعاون حاصل کیا جا سکتا تھا اور انہیں موقع ملا تو ایسا ہی کریں گے لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ یہ گمبھیر صورت حال بتاتی ہے کہ مہنگائی کا سبب محض ناجائز منافع خوری نہیں بلکہ اس میں ہماری معاشی مجبوریوں، عالمی حالات اور حکومتی پالیسیوں کا بھی نمایاں حصہ ہے۔ لہٰذا مہنگائی کے جن پر قابو پانے کا طریقہ یہ نہیں کہ سارا بوجھ عام آدمی پر منتقل کیا جاتا رہے جس کی کمر اس عفریت نے پہلے ہی توڑ رکھی ہے۔ اس کے بجائے ناگزیر ہے کہ دولت مند طبقوں کے استعمال کی تمام اشیائے تعیش سمیت ساری ایسی درآمدات بند کردی جائیں جن کے بغیر زندگی میں کوئی حقیقی کمی واقع نہیں ہوتی۔ وزراء اور مشیروں کی تعداد حقیقی ضرورت تک محدود کی جائے، تمام غیرضروری سرکاری اخراجات بند کیے جائیں، مقامی صنعتوں کو فروغ دیا جائے، شمسی توانائی کے حصول کو سہل بناکر بجلی کے معاملے میں گھروں، دفاتر، کارخانوں، بازاروں کو خود کفیل کردیا جائے، ٹیکسوں کی تعداد اور شرح کے بجائے ٹیکس نیٹ کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے نیز بہتر معاشی حکمت عملی وضع کرنے کے لئے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر قومی مفاد میں وسیع البنیاد مشاورت کا اہتمام کیا جائے۔