• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی فوج عددی حجم میں بڑی ہے، دماغ نہیں رکھتی، اکانومسٹ

The Indian Army Has A Numerical Volume Do Not Have Mind Economist
رفیق مانگٹ.....برطانوی جریدے ’اکانومسٹ‘ نے بھارتی افواج کی طاقت اور برتری کا پول کھول دیا،لکھا کہ بھارتی فوج صرف کاغذات پر مضبوط ہے،عددی حجم میں بڑی ضرور ہے مگر بھارتی فوج کے پاس دماغ نہیں۔ بھارت خود اعتراف کرتا ہے کہ وہ مضبوط فوج تیار کرنے میں ناکا م رہا۔

بھارتی فوج کرپشن اور اسکینڈل میں ملوث ہے، فضائیہ بوسیدہ اور ناکارہ ائیرڈیفنس کی حامل ہے،60فی صد جنگی طیارے اڑنے کے قابل نہیں، بحریہ کی صلاحیت بھی قابل قدرنہیں، جنگی بیڑہ ہزار سے زائد تبدیلیوں کی وجہ سے تیاری میں تاخیر کا شکار ہے۔

مبصرین کی طرف سے حیرانی بجا طور پر ٹھیک ہے کہ سخت حفاظتی حصار کے حامل فوجی بیسز کے اندرگوریلے کیسے بار بار داخل ہو جاتے ہیں۔

 جریدہ لکھتا ہے کہ بھارت ملٹری یا دفاعی لحاظ سے اتنامضبوط نہیں جتنا اعدادوشمار بتا کر برتری ظاہر کی جاتی ہے، اس کی اسٹریٹجک پوزیشن انتہائی خطرناک ہے،یہ حیران کن بات ضرور ہے مگر اس کابھارت بھی اعتراف کرچکا ہے کہ وہ مضبوط فوج تیار کرنے سے قاصر ہے۔

بھارت کی مسلح افواج کاغذ پر توبڑی اور مضبوط لگتی ہیں، لیکن حقائق کچھ اور ہیں، فہرست میں وہ دنیا کی چین کے بعد دوسری بڑی فوج ہے جو مختلف دشوار علاقوں اور حالات میں لڑائی کا تجربہ رکھنے کا دعویٰ رکھتی ہے۔ 2010 کے بعد سے عالمی سطح پر اسلحے کی درآمد کنندگان کی فہرست میں بھی بھارت پہلے نمبر پر ہے۔

روسی جنگی جہازوں، اسرائیلی میزائلوں، امریکی ٹرانسپورٹ طیاروںاور فرانسیسی آبدوزوں سمیت اعلیٰ جنگی ہتھیار رکھنے کے ساتھ وہ ملکی سطح پر بھی دفاعی سازوسامان کی تیاری کے جنون میں مبتلا ہے، ملکی سطح پر لڑاکا طیارے ،کروز میزائل اور بحری بیڑے کی تیاری میں مصروف ہیں،جس کی مثال کوچی میں شپ یارڈ میں چالیس ہزار ٹن کے طیارہ بردارجہاز ابھی تیاری کے مراحل میں ہے۔ 

اتنے بھاری جنگی سازوسامان کے باوجودبھارتی افواج اور اس کے دفاع کے کھوکھلے دعووں کے متعلق سنجیدگی سے آوازیں اٹھتی ہیں کہ جن کے بار ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی دفاعی اسلحہ بوسیدہ اور ناکارہ ہوچکا ہے۔فوجی امور پر ایک مبصراجائی شکلاکا کہنا ہے کہ’ ہمارا ائیر ڈیفنس ایک چونکانے دینے والی حالت میں ہے جن میں زیادہ تر ستر کی دہائی کا ہے ‘ نئے فضائی دفاعی نظام کی تنصیب کےلئے بھی کم از کم دس برس کا عرصہ درکار ہے۔

کاغذ ات پر بھارت کی فضائیہ دنیا کی چوتھی سب سے بڑی ائیر فورس ہے جس کے پاس دو ہزار سے زیادہ جنگی طیارے ہیں لیکن برطانوی دفاعی جریدے IHS جین کی 2014 نے بھارتی دفاع کی ایک اندرونی رپورٹ کے حوالے سے لکھا تھا کہ بھارت کے 60 فی صد جنگی جہاز اڑنے کے قابل ہی نہیں۔ 

رواں برس کے اوائل میں بھارت کی سرکاری اکاؤنٹنگ ایجنسی کی طرف سے ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی بحریہ کا فضائی بازو’ مگ29کے‘ 45طیارے ہیں جن پر انہیں فخر ہے لیکن ان طیاروں کی صلاحیت16سے38فی صد ہے۔ بھارت میں جس طیارہ بردار جہا ز کو بنایا جا رہا ہے اس کا آرڈر پندرہ برس قبل دیا گیا اور اسے2010میں مکمل ہو نا تھا لیکن اس میں1150 سے زیادہ تبدیلیاں کی گئی، اب اس کے تیار ہونے بھی کئی برس لگ جائیں گے ،تاہم اب اس کے بحریہ میں شامل ہونےکا 2023 سال بتایا جا رہا ہے۔

اس طرح کی تاخیر غیر معمولی صورت اختیار کرچکی ہے جس کی ایک مثال بھارتی فوج کے 1982 کے بعد سے ایک نئے معیار کی رائفل کے حصول کی کوشش ہے، یہ معاملہ مقامی پیداوار اور پسند کی درآمدات کے درمیان لٹک گیا۔ بھارتی فضائیہ کو سوویت دور کے پرانے ماڈل طیاروں کو تبدیل کرنے میں سولہ سال لگ گئے، فوجی تجزیہ نگار کے الفاظ میں بھارت کی طرف سے طیاروں میں جدید خصوصیات کے مطالبات،قیمتوں پر سودابازی اور مقامی کوٹہ جیسے ایشو اٹھا کر غیر ملکی مینوفیکچررز کو ایسی مشکل میں ڈال دیا گیا کہ وہ دیوار وں پر سر پیٹ رہے ہیں۔چار سال قبل فرانس نے126لڑاکا طیارے رافیل فراہم کرنے کی منظوری دی جو اب36طیاروں تک بات آگئی ہے۔

بھارتی فوج اسکینڈل کا بھی شکار ہے، ماضی میں کرپشن مسئلہ بنارہا ہے ۔ مبصرین ملٹری انتظامات پر حیران ہیں۔ حال ہی میں بھارتی عوام نے ترقیوں پر جرنیلوں کے درمیان قانونی لڑائی بھی دیکھی۔ تنخواہوں پر تنازعات اور افسران کے بڑھتے وزن کو کم کرنے کے احکامات جیسے عوامل بھی سامنے آئے۔ جولائی میں ایک فوجی ٹرانسپورٹ طیارہ خلیج بنگال میں سوار 29 افراد کے ساتھ غائب ہو گیا۔ اگست میں ایک آسٹریلوی اخبار نے بھارت کی نئی فرانسیسی آبدوزوں کی تکنیکی تفصیلات وسیع پیمانے پر لیک کردیں۔

بھارتی افواج کے ساتھ ایک سنگین مسئلہ اس کی اسٹرکچرکا بھی ہے۔سیکورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلح افواج اپنے طور پر قابل تو ہیں لیکن مصیبت یہ کہ ہر ایک اپنی جاگیربنا کے علیحدہ کام کرتا ہے۔ مسلح افواج میں وہ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے،وزارت دفاع میں سویلین فوجیوں سے بات نہیں کرتے۔وزارت کے اندر کوئی بھی فوجی تعینات نہیں ہے۔بھارت کی دیگر وزارتوں کی طرح محکمہ دفاع بھی سرکاری ملازمین اور سیاسی تعیناتیوں کے تحت چلایا جا رہا ہے جہاں بیلسٹک کی بجائے بیلٹ باکس پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ یوں سمجھا جاتا ہے کہ ایک جنرل پریکٹیشنر سرجری انجام دے سکتا ہے۔ بھارتی فوج حجم کے لحاظ سے تو بڑی ہے لیکن ان کے پاس دماغ کی کمی ہے۔

 جریدہ اپنی تفصیلی رپو رٹ میں مزید لکھتا ہے کہ کئی بھارتیوںکے نزدیک ان کے ملک کی اسٹریٹجیک پوزیشن انتہائی خطر ناک ہے۔ اس کے دو بڑے ہمسایہ ممالک چین اور پاکستان ہیں۔ دونوں کے ساتھ بھارت جنگ کرچکا ہے ان ممالک کے ساتھ بھارت کے سرحدی معاملات پر تلخیاں موجود ہیں۔ جوہری ہتھیاروں سے مسلح ہونے کے ساتھ دونوں ایک دوسرے کے اتحادی ہیں۔ 

چین ایک ابھرتی سپر پاور ہے جس کی جی ڈی پی بھارت سے پانچ گنا زیادہ ہے۔چین بتدریج برصغیر میں اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر ’اسٹرنگ آف پرل‘ کے تحت بھارت کے روایتی پانیوں اوردائرہ کار پر اثر رسوخ بڑھاتا جا رہا ہے۔بھارت کے مقابلے پاکستان نسبتاً چھوٹا ہے مگر ایٹمی ڈھال کے پیچھے محفوظ ہے۔ مذہبی عسکریت پسند بھارت میں بھی کارروائیاں کر چکے ہیں،علاقائی سیکورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ایسا واقعہ خطے میں چنگاری ثابت ہو سکتا ہے۔

بھارتی حکام نے اڑی حملے کاالزام پاکستان پر لگادیا اور بھارت کے سیاستدان اور پنڈت پاکستان کے خلاف سخت ردعمل کا مطالبہ کررہے ہیں۔ نئی دہلی کے ایک تھنک ٹینک کے ریٹارئرڈ بریگیڈئر کا کہنا ہے کہ ہر وہ پاکستانی پوسٹ جہاں سے در اندازی ہو تی ہے، اسے گولوں کے ذریعے ملبے کا ڈھیر بنا دیا جانا چاہیے۔ انتخابات کے دوران ہندو انتہا پسندوں نے پاکستان کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کے دعوے کیے تھے،تاہم مود ی اپنے پیش رو کے مقابلے میں نرم رہے۔21ستمبر کو پاکستانی سفیر کو طلب کرکے حملہ آوروں کے متعلق مبینہ ثبوت فراہم کیے گئے اور کہا گیا کہ بھارت نے رواںسال کے اوائل سے اب تک 17دہشت گردی کے حملوں کو روکا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ بھارت نے ایسا کر کے زیادہ ذمہ داری دکھائی اور سفارتی قد میں اضافہ کیا کیونکہ وہ جوہری حملے کے خطرات سے واقف ہے اس کے ساتھ اسے معاشی پالیسیوں کے لئے بھی خطرات کا سامناہے۔

 بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی اس صورت حال سے واقف ہیں کہ انہیںپاکستان کی طرف سے ایک غیر معمولی ردعمل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔بھارت کی طرف سے کوئی بھی ایسا قدم پاکستان میں دیگر عناصر کو مضبوط کرسکتا ہے جو بھارت کے اپنے مفادات کے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ ہوں۔
تازہ ترین