• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فلسطینی صدر جناب محمود عباس نے حال ہی میں پاکستان کا تیسرا دورہ کیا ہے اس سے قبل وہ 2005 اور 2013 میں بھی جمہوریہ پاکستان تشریف لا چکے ہیں۔ انہوں نے صدارتی ذمہ داری اگرچہ جناب یاسر عرفات کی وفات کے بعد سنبھالی لیکن یاسر عرفات کے قابلِ اعتماد ساتھی کی حیثیت سے اپنی قوم کے لیے جد و جہد کی طویل تاریخ کے حامل ہیں وہ فلسطینی عوام میں اپنی معتدل و مستقل مزاجی ، حقیقت پسندی اور صلح جوئی جیسے اوصاف کے حامل مقبول زیر ک رہنما ہیں یہی وجہ ہے کہ شدت پسند طبقات اُن سے مطمئن نہیں ہو پائے جس کا نقصان فلسطینی عوام کو اٹھانا پڑا ہے۔
اسرائیل کو چونکہ امریکا کا بہت قریبی دوست خیال کیا جاتا ہے اور سرد جنگ کے زمانے میں جناب یاسر عرفات سو و یت یونین کے زیادہ قریب تھے ہمارا ہمسایہ ملک چونکہ سو و یت کیمپ کا اہم حصہ تھا اس لیے بھارتی قیادت کے فلسطینیوں کے ساتھ بہت قریبی تعلقات رہے یاسر عرفات پاکستان کی نسبت انڈیا کے زیادہ قریب خیال کیے جاتے رہے وہ شرمیتی اندرا گاندھی کو ہمیشہ ’’مائی سسٹر‘‘ کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے مگر آج صورت حال بڑی حد تک بدل چکی ہے اگرچہ اب بھی فلسطینیوں کے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اس کے باوجود جناب محمود عباس کا اسلام آباد میں یہ بیان کہ مسئلہ کشمیر پر ہم پاکستانی موقف کی حمایت کرتے ہیں اور اس کا حل UN کی قرار دادوں کے مطابق چاہتے ہیں ہم پاکستانیوں کے لیے قابلِ قدر ہے پاکستان نے بھی فلسطینی بھائیوں کی حمایت میں کبھی کوتاہی نہیں کی ہے اگرچہ پاکستان میں بہت سے لوگ یہ سوال اٹھاتے رہتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ ہمارا براہِ راست کوئی تنازع نہیں ہے تو پھر اس کی مخالفت میں پیش پیش ہونے کی ضرورت کیا ہے ؟ لیکن پاکستانی حکومت نے تمام بین الاقوامی فورمز پر مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ اسی سر گرمی سے پیش کیا ہے جس طرح وہ مسئلہ کشمیر کو پیشکرتی ہے۔
ابھی جناب محمود عباس کے حالیہ دورے کے دوران اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے اس امر کا اعادہ کیاکہ اسرائیل اور فلسطین کا تنازع حل کیے بغیر مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن قائم نہیں کیا جا سکتا ۔ فلسطین اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر دیرنیہ مسئلہ ہے اور یہ عملی حل کا متقاضی ہے بین الاقوامی طور پر متفقہ پیرا میٹرز 1967 سے قبل کی سرحدوںاور القدس شریف کے دارالحکومت کی بنیاد پر فلسطین کی ایک موزوں قابل عمل اور آزاد ریاست کا قیام امن کی واحد پائیدار ضمانت ہے ۔ اقوامِ متحدہ کی قرار داد نمبر 2334 اسرائیل سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ فلسطینی علاقے میں اپنی آباد کاری کی پالیسی ترک کر دے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے صدر محمود عباس کے ساتھ مل کر ڈپلومیٹک انکلوژر میں نئے تعمیر شدہ فلسطینی سفارت خانے کا افتتاح بھی کیا جس کے لیے 1992 میں پاکستان نے اراضی تفویض کی تھی اور ساڑھے تین ملین ڈالر ز کے اخراجات میں بھی ایک ملین ڈالر ادا کیے ہیں ۔اس امر میں کوئی اشتباہ نہیں ہے کہ پاکستانی حکومت اور عوام مسئلہ فلسطین کو اتنا ہی اہم خیال کرتے ہیں جتنا مسئلہ کشمیر کو اور یہ چاہتے ہیں کہ عوامی امنگوں کے مطابق ہر دو مقامات پر کامیابی نصیب ہو لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ باقی دنیا ہماری طرح نہیں سوچ رہی ہے۔
ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ کسی بھی جگہ اگر انصاف نہیں ہو گا تو فساد پھوٹے گا لہٰذا فساد اور بد امنی سے بچاؤ کا راز عدل و انصاف میں پوشیدہ ہے اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک ابدی حقیقت ہے کہ اگر آپ انصاف کے خواستگار ہیں تو آپ کو خود بھی پاکیزہ ہاتھوں کے ساتھ آنا چاہیے اگر آپ کے اپنے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے آلودہ ہو نگے تو عصر حاضر میں آپ اپنے لیے عالمی اخلاقی حمایت کھو بیٹھیں گے یہ ایسے عصری تقاضے ہیں جن سے اگر آپ آنکھیں موندنا چاہیں تو بخوشی موند سکتے ہیں لیکن دوسروں کی آنکھیں پھوڑ سکتے ہیں نہ اُن پر پٹی باندھ سکتے ہیں ۔ مسٹر گاندھی نے نعرہ آزادی کے ساتھ ہی اسی شدو مد کے ساتھ عدم تشدد کا نعرہ بھی بلند کیا تھا۔ ہمارے قائد تو اس قدر قانون پسند تھے کہ انہوں نے اپنی تمامتر جد وجہد میں کبھی ملکی قانون کو نہیں توڑا اور نہ وہ کبھی جیل یاترا پر گئے اپنی تمامتر جد و جہد اصولی، قانونی اور سیاسی اسلوب میں آگے بڑھائی اور مقصد کے حصول میں کامیابی حاصل کی عصرِ حاضر میں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی احتجاجی دہشت سے ڈرا کر اپنا مدعا حاصل کر لے گا تو یہ ایک منفی سوچ ہے۔
فلسطین میں اسرائیل کا قیام ایک جائز فیصلہ تھا یا نا جائز؟ اس پر جب سے اسرائیل قائم ہوا ہے بحثیں ہوتی چلی آ رہی ہیں ہمارے فلسطینی بھائیوںنے اس کے خلاف گوریلا کاروائیاں کر کے بھی دیکھا اور دہشت گردی سے خوفزدہ کرتے ہوئے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی بالآخر فلسطینی رہنما جناب یاسر عرفات کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑا اور جو کچھ فلسطینیوں کو اب تک حاصل ہو سکا ہے وہ ان مذاکرات اور معاہدوں ہی کا نتیجہ ہے معاہدہ اوسلو سے لے کر شرم الشیخ تک سفارتی جدو جہد کی ایک تاریخ ہے جس میں خود جناب محمود عباس بھی کسی نہ کسی صورت شامل رہے ہیں ڈیموکرٹیس چھوڑ ریپبلکن کے ادوار میں بھی حتیٰ کہ بش جونیر نے بھی ان حوالوں سے قابلِ قدر کاوشیں کیں اور امید بندھی تھی کہ فلسطینیوں کو کامرانی کی بڑی منزل مل جائے گی لیکن ابھی تک اس منزل کا حصول باقی ہے۔اب تو صورتحال مزید گمبھیر ہوتی دکھائی دے رہی ہے ڈیمو کریٹ صدر اوباما نے جانے سے پہلے جس طرح یہود کی آباد کاری کے خلاف اقوامِ متحدہ کا ساتھ دیا ریبپلکن صدر ٹرمپ سے ہم اس کی بھی قطعی امید نہیں رکھ سکتے۔ اس کے ساتھ اسرائیل کے ہمسایہ عرب ممالک کے اپنے اندرونی حالات بھی خلفشار کا شکار ہیں سابق مصری صدر انور السادات نے حکمت و دانائی کی پالیسی اپناتے ہوئے اسرائیل کے زیر قبضے سینائی سمیت تمام علاقے واگزار کروا لیے جبکہ آج شام اور لبنان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے کسی کامیابی کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے؟



.
تازہ ترین