پاناما پیپرز لیکس میں وزیر اعظم اور ان کے بچوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک نئی درخواست دائر کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے عمران خان کی جانب سے جمع کرائی گئی اضافی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ نا بنایا جائے،اضافی دستاویزات ہمارے دلائل مکمل ہونے کے بعد جمع کرائی گئیں، ریکارڈ کا حصہ بنانے کی صورت میں مقدمے کی سماعت 8 ہفتوں کے لئے ملتوی کی جائے۔
سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق آئینی درخواستوں کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ سماعت کررہاہے۔
جسٹس کھوسہ نے استفسار کیا کہ آف شور کمپنیوں سے متعلق ایف بی آر کا کیا کردار ہے؟ آف شور کمپنی بنانا کوئی غلط کام نہیں یہ تو طے ہے۔کیا مریم نواز نے ٹرسٹی ہونے کا ذکر کیا؟
چیرمین ایف بی آر نے کہا کہ مریم نے اپنے جواب میں ٹرسٹی ہونے سے متعلق کچھ نہیں کہا،12افراد دنیا میں نہیں رہے ,59 نے آف شور کمپنیوں سے انکار کیا۔92افراد نے آف شور کمپنیوں کو تسلیم کیا۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ 7 گھنٹوں کےکام میں چیرمین ایف بی آرنےایک سال لگادیا۔
چیرمین ایف بی آر نے کہا کہ پاناما معاملہ سامنے آنے ہر فوری طورپر وزارت خارجہ سےرابطہ کیا، ایکشن لینے کے لیے صرف آف شور کمپنی کا نام اور ڈائیریکٹرز کا پتہ ہونا کافی نہیں۔ایف بی آر کا کردار ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔پاناما کے ساتھ ٹیکس معلومات کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں۔پاناما ٹیکسوں کے معاملات کے حوالے سے جنت ہے۔
جسٹس عظمت نے سوال کیا کہ ایف بی آر نے پاناما کے معاملے پر کب وزارت خارجہ سے رابطہ کیا؟ ایف بی آر کا دفتر وزارت خارجہ سے 200 گز کے فاصلے پر ہے۔ایف بی آر کو وزارت خارجہ سے رابطہ کرنے میں 6 ماہ لگ گئے۔ایف بی آر نے آف شور کمپنی مالکان کو نوٹس کب جاری کیے؟