• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب کے وزیر خزانہ اشرف کائرہ نے منگل کے روز مالی سال 2009-10 کے لئے پنجاب کا 489 ارب 87 کروڑ روپے مالیت کا ٹیکس فری بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نئی گاڑیوں کی خریداری اور ہوٹلز میں ہر قسم کی سرکاری تقریبات کے انعقاد پر فوری پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنز میں 15 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ وراثتی جائیداد کی منتقلی پر عائد 2 فیصد سٹیمپ ڈیوٹی بھی ختم کر دی گئی ہے۔ فوڈ سٹیمپ اسکیم کے لئے 16 ارب 20کروڑ روپے ، سستی روٹی اسکیم کے لئے 7.5ارب روپے، سڑکوں کی تعمیر کے لئے 25 ارب روپے، زرعی شعبہ کے لئے 3 ارب 20 کروڑ روپے، صحت اور علاج معالجہ کی سہولتوں کے لئے 22 ارب روپے جبکہ تعلیم اور سروسز کے لئے 22 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے لئے 15 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا گیا اور ضلعی حکومتوں کے لئے 119 ارب 42 کروڑ روپے مختص کئے گئے ۔ غیر ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 314 ارب 87 کروڑ 30 لاکھ روپے جبکہ ترقیاتی اخراجات 175 ارب روپے ہوں گے ۔ غیر ترقیاتی اخراجات میں غریب خاندانوں کیلئے فراہم کی جانے والی 26 ارب 70 کروڑ روپے کی سب سڈی بھی شامل ہے جبکہ وصولیوں کا مجموعی ہدف 463 ارب 62 کروڑ روپے متوقع ہے۔ غریبوں کی بحالی کے پروگرام کے تحت 46 ہزار بے گھر خاندانوں کو مفت رہائشی پلاٹ دیئے جائیں گے اور ایمرجنسی سروس کو دوسرے شہریوں میں بھی شروع کیا جائے گا۔ سرکاری خزانے پر بوجھ کم کرنے کیلئے وزراء اور سرکاری افسروں کو اندرون ملک سفر کیلئے اکانومی کلاس میں سفر کرنا ہو گا۔ ترقیاتی پروگرام کے 175 ارب روپے میں سے 135 ارب 72 کروڑ روپے حکومت اپنے وسائل سے فراہم کرے گی جبکہ دو ارب 55 کروڑ 80 لاکھ روپے فیڈرل گرانٹ اور 10 ارب 47 کروڑ 10 لاکھ روپے بیرونی امداد سے حاصل کئے جائیں گے۔ ہر رکن اسمبلی کیلئے اڑھائی کروڑ روپے کا ترقیاتی فنڈ مختص کیا گیا ہے۔ مختلف مدوں سے ملنے والی رقوم کے بعد خسارے کا حجم ساڑھے 26 ارب روپے رہ جائے گا جسے پورا کرنے کے لئے قرضے حاصل کئے جائیں گے۔ وزیر خزانہ نے اس موقع پر اعلان کیا کہ خانکی ڈیم پر آئندہ سال کام شروع کر دیا جائے گا۔ بجٹ پیش ہونے سے پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور حکومتی حلقے یہ تاثر اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کرتے رہے کہ آئندہ بجٹ میں نہ صرف پنجاب کے عوام پر کوئی نیا مالی بوجھ نہیں ڈالا جائے گا بلکہ عوام کے لئے مراعات اور سہولتوں کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے بھی وافر رقوم فراہم کی جائیں گی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس بجٹ کو ایک مرتبہ پھر غریب پرور بجٹ قرار دیا ہے اور یہ تاثر اس حد تک حوصلہ افزا ہے کہ حکومتی وسائل کے مطابق سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنز میں اضافے کے علاوہ غریب اور بے گھر خاندانوں کو رہائشی سہولتوں کی فراہمی، سستی روٹی سکیم، وراثتی جائیداد پر سے سٹیمپ ڈیوٹی کے خاتمے، سرکاری گاڑیوں کی خریداری اور ہوٹلوں میں سرکاری تقریبات کے انعقاد پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور وزراء اور سرکاری افسران کو اکانومی کلاس میں سفر کرنے کا پابند بنایا گیا ہے لیکن بجٹ کا یہ پہلو بطور خاص عوامی حلقوں میں تشویش اور حکومت پر تنقید کا باعث ہے کہ اس نے تعلیم کے بجٹ میں 7ارب روپے کی کمی کر دی ہے حالانکہ نہ صرف ملک کے ذمہ دار حلقے بلکہ بیرونی ممالک کے سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگار پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تعلیم کے فروغ پر خصوصی توجہ دینے پر زور دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ تعلیم کے ذریعے فکری و نظریاتی تبدیلی کے ذریعے ہی انتہا پسندی اور دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے اسی طرح انصاف تک رسائی پروگرام کے بجٹ میں بھی 41.3 فیصد کمی بھی کوئی حوصلہ افزا بات نہیں جبکہ اپوزیشن حلقوں کا تاثر یہ ہے کہ بجٹ میں کوئی میگا پراجیکٹ پیش نہیں کیا گیا۔ اسی طرح وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کی طرف سے رواں مالی سال کے دوران مختص کردہ رقم سے 14 کروڑ 15 لاکھ روپے کے زائد اخراجات بھی حکومتی وسائل کے ضیاع کے زمرے میں آتا ہے۔ پری بجٹ اسمبلی سیشن کی کوئی تجویز بھی بجٹ میں شامل نہیں کی گئی جبکہ اساتذہ تنظیموں نے تعلیمی بجٹ مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ تعلیم کے لئے کل بجٹ کا کم از کم دس فیصد مختص کیا جائے اور تنخواہوں میں 100 فیصد اضافہ کیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بجٹ پر بحث اور منظوری سے پہلے حکومت مالیاتی پالیسی میں خامیوں اور اپوزیشن ارکان کی مثبت تجاویز کو قرار واقعی اہمیت دے کر عوامی حلقوں کے تحفظات دور کرنے میں کسی تامل کا مظاہرہ نہ کرے۔
تازہ ترین