جیو ٹی وی اپنی مختصر روہنگیا مسلم کوریج میں براہ راست رو ہنگیا مسلمانوں اور دیگر افراد سے کی گئی تحقیقات میں یہ پتہ چلانے میں کامیاب ہو گیا کہ میانمار میں ظلم کوئی میڈیا پروپیگنڈا نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔
میانمار میں مسلمانوں کی وحشیانہ نسل کشی سے متعلق حقائق کی تصدیق کرنا اور دنیا کے سامنے لانا ہمارے مشن کابنیادی ہدف تھا۔
ینگون ایئر پورٹ پر حاجیوں کو دیکھ کر شک ہوا کہ شاید دنیا کو پوری اطلاع نہیں دی جا رہی، شاید کچھ مبالغہ آرائی ہو رہی ہے لیکن یہ ابتدائی تاثر بہت جلد ختم ہو گیا۔
مسلمانوں سے آف دی ریکارڈ بات کرنے سے پتا چلا کہ ارکان سمیت مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم و بربریت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے، جس مسلمان سے بھی بات کی، وہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے رپورٹس کے عین مطابق خون آلود نکلی۔
مسلمانوں کی کیمرے کے سامنے آنے اور بات کرنے میں ڈری سہمی ہچکچاہٹ سب کچھ کھول کر بیان کررہی تھی، خوف کی شدید فضا کے باوجود ہم ٹوٹی پھوٹی اردو بولنے والے ایک مسلمان سے بات کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
ارکان ایک نو گو ایریا ہے، وہاں مسلمانوں پر تعلیم سمیت سفر اور ملازمت پر پابندی ہے، جلاؤ گھیراؤ روز کا معمول ہے۔
ایک مسلم خاتون نے بتایا کہ اس کے ٹیکسی ڈرائیور شوہر کو محض اسلئے جیل میں ڈال دیا گیا کہ وہ ارکان کیلئے سفر کر رہا تھا حالانکہ اسکے پاس لائسنس اور برمی شہریت ہے۔
ایک بزرگ سے ملے تو ثابت ہو گیا کہ مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی حقیقت ہے، ان بزرگ کے چہیتے پوتے کہاں غائب ہوگئے، گولیاں ماری گئیں یا کلہاڑیاں، یا زندہ جلادیا گیا؟ انہیں کچھ پتا نہیں۔
تحقیقات کے دوران ایک دو نہیں بلکہ بیشتر مسلمانوں میں یہ خوف دیکھا کہ کہیں اگلی بار ینگون سمیت دیگر شہروں میں بھی مسلمانوں کیخلاف قتل و غارت شروع نہ ہوجائے۔