• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر خاور حسین قریشی،سیال کوٹ

عالمی ادارۂ صحت کے زیرِ اہتمام ہر سال کوئی ایک تھیم منتخب کرکے دُنیا بَھر میں ’’عالمی یومِ صحت‘‘منایا جاتا ہے۔امسال گزشتہ برس ہی کا تھیم،"Universal Health Coverage: Every One, Every Where" اور سلوگن"Health for All"دہرایا جارہاہے۔دُنیا بَھر میںصحت مند معاشروں کی تشکیل ہر لحاظ سےبےحداہم ہے ،کیوں کہ صرف صحت مند افراد ہی معاشی، معاشرتی، سماجی، سیاسی ، علمی اور تحقیقی اعتبار سے قوموں کے مجموعی مقاصد کے حصول میں اپنا بہترکردار ادا کر سکتے ہیں۔اس کے برعکس اُن مُمالک میں، جہاں لوگوں کو بنیادی طبّی سہولتیں میسّر نہ ہوں، بیماریوں کے پھیلاؤ سمیت غربت جیسے کئی مسائل کی شرح بھی بُلند ہوجاتی ہے۔ اسی لیے اقوامِ متحدہ کے تمام رکن مُمالک 2030ء تک اپنے طے کردہ پائیدار ترقیاتی ہدف کے حصول کے لیے کوشاں ہیں،تاکہ بلاتفریقِ رنگ و نسل اور قوم ہر سطح تک نہ صرف معیاری طبّی سہولتیں دستیاب ہوسکیں،بلکہ ان کے حصول کے لیے کسی بھی قسم کی پریشانی نہ اُٹھانی پڑے۔نیز،حکومتِ وقت بھی ایسا نظام تشکیل دے کہ اگر کوئی فرد بیمار پڑ جائے، تو علاج معالجے کے لیےقرض لینے،جائیداد، املاک گروی رکھنےیا فروخت کرنےکی نوبت نہ پیش آسکے۔2010ء کے ایک سروے کے مطابق دُنیا بَھر میں تقریباً اسّی کروڑ افراد ایسے تھے، جنہوں نے اپنےگھریلو بجٹ کا دس فی صداور18کروڑ افراد نے ایک چوتھائی حصّہ اپنی صحت کی مَد میں خرچ کیا، جب کہ9کروڑ افراد علاج معالجے پر آنے والے اخراجات کی وجہ سے غربت کا شکار ہوگئے ۔ پاکستان میں گھریلو آمدن سےعلاج معالجےکے ضمن میں ہونے والے اخراجات کاتناسب 60فی صدسے زائد ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق صحت کی مَد میں سرکاری ادارے تقریباً30 فی صد، جب کہ نجی ادارے 10فی صد اخراجات کا بوجھ برداشت کرتے ہیں۔ امریکا میں گھریلو بجٹ کا15فی صد صحت پر خرچ کیا جاتا ہے، جب کہ نجی اور سرکاری طور پر یہ شرح40،40فی صد ہے۔ برطانیہ میں گھریلو بجٹ سے15فی صد،جب کہ نجی ادارے10 فی صد اور سرکاری ادرے80فی صد خرچ کرتے ہیں۔اسی لیےدسمبر2012ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک اجلاس میںطے پایا کہ بنیادی صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو ازسرِنو مرتّب کیا جائے، تاکہ ہر سطح تک صحت کی سہولتیں میسّرآسکیں ۔ستمبر2015ء میں اقوامِ متحدہ نے پائیدار ترقیاتی اہداف (SDG: Sustainable Developmen Goals)کے حصول کےلیے یو ایچ سی۔ 2030ء(UHC:Universal Health Coverage-2030)پروگرام مرتّب کیا گیا، جس میں صحت کے لیے مالی تحفّظ ، بنیادی ضروریات، دیکھ بھال کا نظام، معیاری،سستی ادویہ اور ویکسین کی فراہمی شامل ہیں۔پھردسمبر2017ء میں جنرل اسمبلی نے ’’عالمی ادارۂ صحت اور خارجہ پالیسی‘‘ کے تحت تیسری قرارداد منظور کی، جس کےذریعےتمام رُکن مُمالک کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنےمُلکی ماہرینِ صحت، سول سوسائٹی اور نجی اداروں کے ساتھ مل کر غریب، کم زور اور پس ماندہ طبقے کے لیے خصوصی منصوبہ بندی کریں، تاکہ عالمی ادارۂ صحت کےمعیارات کے مطابق ہر فرد تک طبّی سہولتوں کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے۔’’UHC-30‘‘دراصل اسی نظریے کی تشہیر کا پروگرام ہے ،تاکہ عوامی شعور کو اس طرح اُجاگر کیا جائے کہ معاشرے کا کوئی بھی فرد بنیادی صحت کی سہولتوں کے حصول میں پیچھے نہ رہے۔نیز،یو ایچ سی-30ایک ایسی تحریک بھی ہے، جو سیاسی اور حکومتی قیادت کو اعداد وشمار اور دلائل کی بنیاد پر قائل کرتی ہے کہ اپنے مُلک کے غریب اور پس ماندہ طبقے کی صحت اور فلاح و بہبود کے لیے مناسب وسائل فراہم کیے جائیں۔ پائیدار ترقّیاتی اہداف کے حصول کے لیے شعبۂ صحت میں متعدد اقدامات کی ضرورت ہے کہ یو ایچ سی کے مقاصدکا حصول ایک مضبوط نظام ِ صحت ہی کے ذریعے ممکن ہے۔اور یہ نظامِ صحت ہر مُلک اپنے معروضی حالات وضروریات کے مطابق، حکمتِ عملی اور مشاورتی طریقۂ کار ہی سے وضع کر سکتا ہے۔تاہم، اس ضمن میں عالمی ادارۂ صحت نے بھی کچھ اصول وضع کیے ہیں،جو کسی بھی مُلک کے نظامِ صحت کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔چند اہم اصولوں میں پہلا ، بلا امتیازِ رنگ و نسل، مذہب ،زبان و صنف ہر طبقے تک صحت کی سہولتوں کی مساوی اور منصفانہ تقسیم ہے۔ دوسرا نظامِ صحت میں شفّافیت کی برقراری اور تیسرا اہم اصول عالمی سطح پر مُلکوں کے درمیان باہمی رابطے استوار کرنا ہے،تاکہ اچانک وبائی امراض ظاہر ہونے، قدرتی آفات اور حادثات وغیرہ کے نتیجے میں متاثرہ مُلک کا بَھرپور ساتھ دیا جاسکے۔

پاکستان کی بات کی جائے تو یہاںعوام جدید تو دور کی بات، بنیادی طبّی سہولتوں ہی کے لیے ترس رہے ہیں، لہٰذا ہر سطح تک صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے مضبوط نظامِ صحت رائج کرنا ناگزیر ہے ،جس کےلیے تین جہتوں میں مربوط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے توبلا تفریق خصوصاً کم زور، غریب اور پس ماندہ افراد تک صحت کی سہولتیں پہنچانے کے لیے ایک ایسی پالیسی مرتّب کی جائے،جسےتمام سرکاری ، غیر سرکاری ، ادارہ جاتی اور نجی مراکز ِصحت با آسانی اختیارکر سکیں۔چوں کہ پرائمری ہیلتھ کیئر سینٹرز مُلکی نظام اور سماجی رویّوں سے براہِ راست منسلک ہوتے ہیں،تو ان کے ذریعے بھی علاج معالجے کی سہولتوں تک رسائی سہل بنائی جاسکتی ہے۔پھر دُنیا بَھر کی طرح پاکستان میں بھی شعبۂ صحت میں تربیت یافتہ افراد کی کمی مسئلہ بنتی جا رہی ہے، لہٰذا ترجیحی بنیادوں پراس کمی کو پورا کیا جائے۔ اِسی طرح جدید ادویہ اور طبّی ٹیکنالوجی کی فراہمی کے ساتھ، معیار کو برقرار رکھنے کے لیے قانونی طور پر نگرانی کا نظام بھی قائم کیا جائے۔نظامِ صحت کو عوام کی ضرورت کے مطابق بنانے کے لیے وسائل کی تلاش، انہیں جمع رکھنا اور ان کا درست استعمال ضروری ہے، تاکہ طے شدہ حکمتِ عملی پر براہِ راست عمل درآمدبھی ہوسکے۔ وسائل کا استعمال یو ایچ سی کی جانب اہم پیش قدمی ہے کہ جب وقت کے ساتھ ترقّی کی جاتی ہے، تو سہولتیں بڑھنے سے عُمر کے دورانیے میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ "Addis Ababa Action Agenda"(ایک ایسا عالم گیر فریم ورک، جو عمومی پالیسیز کو اقتصادی، سماجی اور ماحولیاتی ترجیحات سے ہم آہنگ کرنے کی تگ و دو کرتا ہے) کےمطابق اقوامِ متحدہ کے رکن مُمالک اس بات کے بھی پابند ہیں کہ ایس ڈی جی کے حصول کے لیےکچھ ایسے معاشی ومعاشرتی اقدامات کریں کہ جن کی بدولت داخلی وسائل میں بتدریج اضافہ ہوسکے۔مثلاً ٹیکس کے نفاذ یا ریونیو میں اضافہ وغیرہ۔رہی بات وسائل جمع کرنے کی، تواس کے لیےمُلکی سطح پرمختلف اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔جیسے ریونیو ہیلتھ کارڈز، مقامی حکومتوں کے فنڈز یا انشورنس اسکیمزوغیرہ۔نیز، ایسے اقدامات بھی کیے جائیں،جن کی بدولت افراد اور خاندانوں پر صحت کا مالی بوجھ کم اور بتدریج ختم کیاجاسکے۔ مثلاً ہیلتھ انشورنس، سبسڈی ،ہیلتھ واؤچرز، یا مالی معاونت وغیرہ۔ وسائل کی تلاش اور یک جائی کے بعد وسائل کا درست استعمال نظام کو مضبوط بناتا ہے۔ کئی مُلکوں میں صحت کا نظام محض اس لیےناقص ہے کہ وہاں وسائل ضایع کردئیے جاتے ہیں۔ ادویہ ،طبّی آلات وغیرہ کی خریداری کےطریقۂ کار میں شفّافیت، ذمّے داری اورخود احتسابی کوپیشِ نظر رکھا جائے، تاکہ یو ایچ سی کا حصول ممکن ہوسکے۔ "Addis Ababa Action Agenda"نے رکن مُمالک کو اس بات کا بھی پابند کیا ہے کہ وہ پس ماندہ مُمالک کی امداد بحال رکھیں، تاکہ وسائل کی فراہمی سے یو ایچ سی کے مقاصد کا حصول ممکن ہوسکے، البتہ اس امداد کو داخلی یا اندرونی سرمایہ کاری سے منسلک کر دیا گیا ہے، تاکہ بیرونی امداد کو خود انحصاری کے حصول کا ذریعہ بنایا جا سکے۔بیش تر مُمالک میں نظامِ صحت میں سرمایہ کاری کے نتیجے میں حیران کن نتائج سامنے آئے، البتہ بعض مُلکوں میں وہاں کے حالات کی وجہ سے نتائج بھی مختلف رہے۔ بہرحال ،ہنگامی حالات سے نمٹنے اور وبائی امراض کی روک تھام کے لیے سرمایہ کاری بہت اہم ہے۔قومی سطح پر یو ایچ سی کے حصول کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ طبّی سہولتیں فراہم کرنے والےاداروں کی قیادت مستند اورانتظامی صلاحیتوں کے حامل افرا دکے سپرد ہو اورصحت کی ترقّی ،ترویج اور تشہیر کے لیے سوسائٹیز کا قیام عمل میں لایا جائے، تاکہ عوام النّاس میں صحت کا شعور اُجاگرہوسکے۔نیز، صحت کے مختلف موضوعات پر بحث مباحثے کا انعقاد کیا جائے،جب کہ صحت سے متعلق تحقیق و تصانیف کے رجحان کو بھی فروغ دیا جائے۔

اقوام ِمتحدہ کے 193رکن مُمالک نے پائیدار ترقّیاتی اہداف2030ء تک حاصل کرنے کا عہد کیا ہے،تاکہ دُنیا بَھر میںصحت کا ایک جامع نظام قائم ہو سکے اورہر فرد اس ضمن میں اپنا بہتر کردار ادا کرے،کیوں کہ دَورِجدید میں اب صحت کی سہولتوں کی فراہمی محض وزارتِ صحت کا کام نہیں رہا، بلکہ یہ ہر ایک کی ذمّے داری ہے۔

(مضمون نگار،بطور جنرل فزیشن سیال کوٹ میںخدمات انجام دے رہے ہیں، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) ،پنجاب کی ایگزیکٹوکاؤنسل کے رکن اور ڈویژنل صدر ہیں، جب کہ کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان، کراچی سے بطورتحقیقی ا سکالر بھی وابستہ ہیں)

تازہ ترین