• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’مائی مکلی ‘‘ دنیا کا عظیم تاریخی ورثہ اور گیارھواں بڑا قبرستان

سندھ کا شہر خموشاں ’’مکلی ‘‘ کا شمار دنیا کے عظیم تاریخی ورثے میں کیا جاتا ہے۔ روسی انقلاب کے نتیجے میں لوگوں کی ہلاکتوں کے بعد جو قبرستان وجود میں آیا تھا اس میں5لاکھ افراد مدفون ہیں جب کہ مکلی کےشہر خموشاں میں اس سے دوگنے یعنی دس لاکھ افراد محو خواب ہیں جن میںسے ہر ایک عظیم الشان شخصیت کا مالک ہے۔ اس قبرستان کا رقبہ تقریباً بارہ مربع کلومیٹر ہے جو روسی قبرستان کی بہ نسبت کہیں زیادہ ہے۔ عراق کا’’ وادی سلام‘‘ قبرستان کا شمار دنیا کے سب سے بڑے قبرستان میں ہوتا ہے جہاں ایک کروڑ افراد دفن ہیں۔ 

دوسرے نمبر پر جرمنی کا ’’اوہلڈسوف ‘‘ ہے جس میں 15 لاکھ افراد مدفون ہیں۔ آسٹریلیا کا’’ راک ووڈ‘‘، ترکی کا ’’کاراساہمت‘‘ قبرستان میں 10، 10 لاکھ انسان محو خواب ہیں۔ پاکستان میں مائی مکلی کے قبرستان، ان دونوں قبرستانوں کا ہم پلہ ہے جہاں10 لاکھ افراد خوابیدہ ہیں، لیکن قدیم اور منفرد انداز سے تعمیر کیے ہوئے مقابر کی وجہ سے اس کا شمار دنیا کے عظیم ورثے میں ہوتا ہے۔۔کتاب ’’مکلی نامہ ‘‘کے مصنف میر علی شیرقانع کا بیان ہے کہ کوئی واصل ولی اللہ بزرگ سفر حج کی منزلیںطے کرتے ہوئے اس کوہ کی ایک پہاڑی پر قیام پذیر ہوئے۔ 

رات کو شاید خواب میں مکہ کا نقشہ دیکھا۔ علی الصباح خواب سے بیدار ہوئے تو زبان مبارک پر ’’ہذا مکۃ لی‘‘ کا ورد تھا اور’’ ازدل خیز دبر دل ریزد ‘‘کے مصداق اس کلمہ صداقت اثر نے شہرت عام اور بقائے دوام حاصل کر لی۔ مکتہ لی میں اولاً ’’ت‘‘ کی تخفیف ہوئی تو مکلی اور پھر امتداد زمانہ نے مکلی کے نام سے مشہور کر دیا۔

اس سلسلے میں ایک اور روایت زیب بیان اس طرح کی بھی ہے کہ ایک خدا رسیدہ زاہدہ اور عابدہ خاتون اس علاقے میں رہائش پذیر تھیں جن کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔جب وہ اس دار فانی سے رخصت ہوئیں تو اس پہاڑی پر ان کی آخری آرام گاہ بنائی گئی ۔ اس سے متصل شیخ حماد جمالی نے ایک جامع مسجد کی بنیاد رکھی اور اس ٹیلے کا نام انہی زاہدہ خاتون کے نام پر ’’مکتہ لی‘‘ رکھا گیا جو وقت گزرنے کے ساتھ مکلی ہو گیا۔ اس شکستہ جامع مسجد کی محراب کے روبرو اس پا کیزہ خاتون کا مزار اپنی خستہ حالی پرنوحہ کناں ہے۔اسےیونیسکو کی جانب سے 80ء کی دہائی میں عالمی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔

مکلی کا شہر خموشاں مختلف حکم رانوں کے ادوار کاچشم دیدگواہ ہے۔ اس کے مقابر کم از کم چار جام یعنی سمہ، ترخان، ارغون اور مغل حکمرانوں کے ادوار کی تہذیب و تمدن اور محلاتی سازشوں کی کہانیاں بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مختلف حکمرانوں کے اپنے پیش روئوں کے لئے بنائے گئے خوبصورت مقابر کے علاوہ ان پربنائے گئے دل کش نقش و نگار مقابر میں خوابیدہ افراد کے جاہ جلال اور شان و شوکت کی کہنیاں بھی بیان کرتے ہیں ۔

مقابرکی تعمیر میں جو پتھر استعمال کیا گیا ہے، اس پتھر پر نقاشی کا کام بڑے خوبصورت طریقے سے کیا گیا ہے جس کو حسب منشا نفاست سےتراشا بھی جا سکتا ہے۔ پتھر کی یہ نقاشی اور کٹائی دراصل گجراتی فن تعمیر کا حصہ ہے۔ اس طرح کی کٹائی کو پتھر میں ’’لیس کا کام‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر پتھر کے استعمال کے لئے دو طرز کی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ پہلی طرز کا نمونہ ایک نفیس طلا کاری کا کام ہے جو سطح پر ابھری ہوئی ہے جب کہ دوسری کی زمین جو کھدی ہوئی ہے، ابھری ہوئی ہے اور خوشنما سطح پر نمونے کندہ کئے گئے ہیں، یہ تمام نقش و نگار ہلکے اور گہرے رنگ کے خوشنما اثرات پیدا کرتے ہیں۔

سب سے زیادہ شاندار اور دلفریب پتھر سے بنی عمارات میں جام نظام الدین، عیسیٰ خان ترخان اور جان بابا کے مقبرے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مبارک خان، باقی بیگ تغرل اور عیسیٰ خان ترخان اول کے مقابربھی مختلف قسم کے نمونوں اور کندہ کاری میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ جام نظام الدین جو سمہ خاندان کا مشہور حکم راں تھا، اس کا مقبرہ نفیس نقش و نگار سے آراستہ ایک حسین و جمیل عمارت ہے جو 15ویں صدی کے گجراتی تعمیرات سے کسی حد تک ملتی جلتی ہے۔ 

محرابی سلسلے سورج مکھی کے پھولوں سے سجے ہوئے ہیں۔اس مقبرے کو دیکھ کر گجرات میں احمد آباد کی اسلامی عمارات کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ محراب پر اندر سے بہت نفیس کندہ کاری کی گئی ہے جس کے اوپر عربی عبارات بھی موجود ہیں جو فن خطاطی کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔

مکلی کی تاریخی عمارات میںدل کو موہ لینے والی ،تخلیق چھتری نما سائبان یا بارہ دری ہے۔ یہ بعض جگہ ایک چبوترے پر بنائی گئی ہیں جو تعداد میں ایک درجن سے زائد ہیں۔ ان بارہ دری میں آٹھ تا بارہ ستون ہیں جن کے اوپر چھتری نما سائبان اپنی شاندار تعمیر کی بناء پر ایک خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ اس مربع نما تعمیر کے کونے ہشت پہلو یعنی مثمن کی شکل میں تراشے گئے ہیں۔ گنبد کو بارہ دری کی چاروں سمت میں دو، دو ستونوں سے سہارا دیا گیا ہے۔ 

یہ ستون گل کاری اور بیل بوٹوں کے کام سے سجے ہوئے نہایت دلکش معلوم ہوتے ہیں۔مکلی کی تمام قبریں چاہے وہ مضبوط اور پختہ اینٹوں سے تعمیر کیے ہوئے مقابر کے اندر بنی ہوئی ہوں یا کھلے آسمان کے نیچے یا پھر چبوترے پر بنائی گئی ہوں، ان پر عموماً نہایت شاندار مذہبی نمونے یا عربی عبارات کندہ ہیں جو اسلامی فن تعمیر کا مخصوص انداز پیش کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ پتھروں پر عربی یا فارسی کے حروف کا حاشیہ کافی مہارت سے نقش کیا گیا ہے جس سے اس زمانے کے لوگوں کا اپنے مرنے والے افراد سے عقیدت اور ان سے دلی وابستگی کا اظہار ہوتا ہے۔

مکلی پر واقع یہ مزار اور مقبرے اپنے دور کے فن تعمیر کی نمائندگی اور نشاندہی کرتے ہیں۔ اس قبرستان میں اگر جنوب سے شمال کی طرف جائیں تو اس کی یادگار عمارتوں میں تاریخی ترتیب کی جھلک نظر آتی ہے۔ یعنی سب سے پہلے مغلیہ دور جس میں جانی بیگ ترخان، غازی بیگ ترخان، باقی بیگ ترخان، طغرل بیگ، عیسیٰ خان ترخان ثانی، جان بابا، دیوان شرفاء خان اور نواب امیر خان کے خاندان کے مزارات شامل ہیں۔ 

دوسرے حصہ کا تعلق ترخان اور ارغون دور سے ہے۔ اس میں عیسیٰ خان ترخان اول، باقی بیگ ترخان اور دوسری شخصیات کے مقبرے ہیں۔ تیسرے حصہ کا تعلق جو انتہائی شمال میں ہے، سمہ دور سے ہے ان میں جام نظام الدین، مبارک خان عرف دولہا دریا خان، ملک راج پال اور ان کے اہل خاندان کے مقبرے ہیں۔ چند ایسے مقبرے بھی ہیں جن کی شناخت نہیں ہو سکی۔ مکلی کے چند قابل ذکر مقبرے یہ ہیں۔

مرزا عیسیٰ ترخان ثانی کا مقبرہ

مکلی میں یہ مغلیہ دور کی سب سے بڑی اور عظیم الشان عمارت ہے۔مرزا عیسیٰ خان ترخان ثانی، میرزا عیسیٰ خان اول کا پوتا تھا۔ ترخان خاندان کے زوال کے بعد دہلی کے مغل دربار میں پہلے چار ہزاری منصب پر فائز رہا اور بعد میں1627ء میں اس کو سندھ کا گورنر مقرر کیا گیا۔ شاہجہاں کے دور حکومت میں وہ کرنا کا قلعہ دار تھا اور اسی زمانے میں اس نے اپنے مقبرے کی تعمیر کے لئے پتھر ٹھٹھہ روانہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ 

تعمیر کا کام بھی مسلسل اٹھارہ سال تک اس کی زندگی میں ہی جاری رہا۔ اس کا انتقال1664ء میں ہوا۔ مرزا عیسیٰ خان ترخان کا پورا مقبرہ مختلف رنگوں کے پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے اور اس میں ایک بڑا گنبد بھی ہے۔ محرابوں پر قرآنی آیات انتہائی خوبصورت انداز میں تحریرگئی ہیں جو خطاطی کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ چھت کے اندرونی حصے میں رنگین ٹائلز لگے ہیں جو آنکھوں کو بھلے لگتے ہیں۔ مقبرے کے احاطے میں عیسیٰ خان ترخان ثانی کے خاندان کے گیارہ افراد کی قبریں کتبے کے بغیر ہیں جب کہ وہیں اس کی اہلیہ بھی دفن ہے۔

مقبرہ مرزا جان بابا

مرزا عیسیٰ خان ثانی کے والد مرزا جان بابا کا مقبرہ بھی فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ مرزا جان بیگ کے بڑے بھائی مرزا باقی بیگ نے ذاتی رنجش کی بناء پر انہیں قتل کروا دیا تھا۔ ابتدا میں اس مقبرے پر تین گنبد تھے لیکن امتداد زمانہ کے ہاتھوں دو گنبدوں کا نام و نشان مٹ چکا ہے اب صرف ایک باقی بچا ہے۔ جس ٹیلے پر مرزا جان بابا کا مقبرہ بنا ہوا ہے اس کے نیچے بارہ درون والا دالان بنا ہوا ہے جہاں سمہ حکمران جام تماچی غریب مچھیرن نوری کے عشق میں گرفتار ہوا تھا۔

مرزا جانی بیگ ترخان و غازی بیگ

مرزا جانی بیگ، ترخان خاندان کا آخری فرماں روا تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں ہی ابدی آرام گاہ کی تعمیر اور اس کی تزئین و آرائش کرائی تھی۔ مرزا جانی بیگ اور اس کے بیٹے مرزا غازی بیگ کے مقبروں کی عمارتیں بہت عظیم الشان ہیں جو چمکدار مٹی اور سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں۔ خاص عمارت ہشت پہلو ہے جس کے دونوں اطراف کے دروازوں پر قرآنی آیات خوبصورت انداز میں سفید رنگ سے تحریر کی گئی ہیں۔ 

مقبرے کا ایک حصہ منہدم ہو چکا ہے لیکن ایک فصیل آج بھی باقی بچی ہوئی ہے جس پر سے پورے علاقے کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ مرزا جانی بیگ ترخان، مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے دربار میں اعلیٰ منصب پر فائز تھا۔ دکن پر فوج کشی کے دوران وہ بادشاہ کے ساتھ تھا۔ 1681ء میں اس کا انتقال ہوا۔ اس کا فرزند مرزا غازی بیگ جو افغانی صوبہ قندھار کا گورنر تھا، اپنے ہی ایک مصاحب کے ہاتھوں قتل ہوا، اسے بھی اپنے باپ کے ساتھ مکلی کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔

مقبرہ مرزا طغرل بیگ

مرزا طغرل بیگ جس نے مغل بادشاہ عالمگیر سے بغاوت کی تھی اس کا مقبرہ ایک بڑے احاطے میں چٹانی پتھروں سے بنا ہوا ہے۔ اس میں16محرابیں ہیں اور آٹھ ستونوں پر گنبد بنا ہوا ہے۔ ترچھے ٹائل لگائے گئےہیں جو خم دار پتھروں کے سہارے چھت پر ٹکے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ مرزا باقی بیگ ترخان اہنسا بائی، ابشاد بائی کے مقابر بھی ہیں جن کی چھتوں پر گلاب اور سورج مکھی کے پھول نقاشی کے ذریعے بنائے گئے ہیں۔ ان پتھروں پر فارسی اور عربی زبانوں میں اشعار کندہ ہیں۔

مقبرہ جام نظام الدین

قبرستان کے تیسرے حصے میں جام نظام الدین المعروف جام نندو کا عالیشان مقبرہ بنا ہوا ہے۔ ان کا دور حکمرانی سمہ خاندان کا سب سے طویل دور تھا جو تقریباً نصف صدی پر محیط تھا۔ ان کے مقبرے کی طرز تعمیر میں گجراتی، ہندی، سندھی، ایرانی اور یونانی فن تعمیر کا امتزاج نظر آتا ہے۔ مقبرے کے دروازے ایک قطار میں بنے ہوئے ہیں اور تمام کونوں پر چھوٹے چھوٹے مینار بنے ہوئے ہیں۔

مقبرہ دولہا دریا خان

دولہا دریا خان جس کا اصل نام قبولو یا قبول محمد تھا۔ وہ جام نندا کے منہ بولے بیٹے اور بہادر سپہ سالار تھے۔ ارغون حکمراں شاہ بیگ نے اس کے ہاتھوں پسپائی کے بعد اسے دھوکے سے قتل کرا دیا۔ اسے بھی اسی قبرستان میں دفن کیا گیا ہے۔ اس کا مقبرہ ایک اونچے چبوترے پر بنا ہوا ہے جس کے چاروں طرف اونچی اونچی دیواریں ہیں۔ مقبرے پر خوبصورت نقش و نگار بنے ہیں۔

تازہ ترین