• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ربیع الاول وہ ماہِ مبارک ہے جس کا ہر لمحہ بشارتوں اور محبتوں کے نزول کا پہریدار ہے،انسانوں کے ہجوم میں پاؤں تلے آکر کچلی جانے والی قدروں کو سنبھالنے والوں کی سسکیوں کی جانب دھیان کی باری کھولنے کی سرگوشی ہوا کے کان میں پھونک دیتا ہے۔ہر سال زندگی کا ڈھنگ تبدیل کرنے کا پیام لے کر آنے والا مہربان وقت ہمیں بتاتا ہے کہ ہماری زندگیوں کی تمام تر الجھنوں اور پریشانیوں کا سبب ہماری اس اخلاقی ضابطے سے دوری اور مجبوری ہے ۔جس کو ہمارے پیارے رسولؐ نے عمل کے مرحلے سے گزار کر ہمیں سمجھایا اور پیروی کو سہل بنایا۔ یہ کا ئنات اک معجزہ ہے کیونکہ نبی آخر زماںﷺ کی میزبانی اس کا مقدر اور وجہ تخلیق بھی تھی ۔آج کے دن اگر ہم اپنے نبیﷺ کی محبت کو ان کی سیرت پر عمل سے مشروط کر کے سفر آغاز کر دیں تودلوں میں بھری تعفن بھری کدورتیں دھواں ہو کر تحلیل ہو جائیں۔دل نور کے آئینے بن جائیں اور دنیا رہنے کی ایسی جگہ بن جائے، جسے امن کی آماجگاہ کہا جاسکے ۔نبی ﷺکی چاہت میں جو بھی اظہار ہوتا ہے محبت کو جب بھی تجسیم کرتی ہوںوہ آنسوئوں کی صورت ٹپکے ہوئے موتی ہیں جو صفحات پر لفظوں کی شکل دھارتے رہتے ہیں۔ رحمت کی تحویل میں عشقِ مصطفیٰؐ کی سرشاری سے بڑی سعادت آج تک اس کائنات کو عزیز نہیں ہوئی ۔میں بھی اسی خوانِ نعمت کی ادنیٰ سی ریزہ چیں ہوںلیکن اس سعادت کے نصیب ہونے سے پہلےایک اور فضیلت اپنی چھید چھید جھولی میں ٹانکنا چاہتی ہوں جو فقط خواہش سے نہیں، مقدر سے ملتی ہےمیں عشقِ نبی کو اوڑھنی بنا کر تن کو ہر لمحہ محبت کے احساس تلے محسوس کرتی ہوں مجھے اسمِ نبی کے ورد نے اکسایا ہےعمل کی دہلیز پر آکر سفر آغاز کرنے پر، مسکان کی پتیوں سے درو دیوار سجانے ہیں ، جذبہ زنگی سے عاری سوالی چہروں کی ویرانی،حیرانی اور پشیمانی کے الجھے اندھیرے راستے میں بھٹکتے ٹھٹھکتے خوفزدہ دلوں کی خاطر آنکھوں کے بنیرے پر تشکر کے دِیپ رکھنے ہیں جو گزرنے والوں پر چانن برسائیں، انہیں دکھلائیں رستہ محبت اور حضوری کا ، انھیں سکھلائیں رسم برداشت کی دن بدن توانا ہوتے،کائنات کی سرحدوں کے اندر پنپتے دہشت اور وحشت کے ہیولے مجھے یقین کی جادوئی لاٹھی سے ہانک کر دور بھگانے ہیں، فصیلِ زندگی کے پار، مجھے دن بدن تقسیم ہوتی نسلِ انسانی کو ان کے دلفریب رنگوں سمیت محبت کے اک عقیدے کی تسبیح میں پرونا ہے۔میرا نبی ﷺجس کی رحمت کا سایہ دونوں جہانوں کی سرحدوں سے سوا ہےاور جس کی سیرت کی مہکار، سبھی خوشبوئوں سے زیادہ متبرک اور حسنِ امکاں سے کہیں متبرک ہے۔اس نبی کے عشق میں جینا، سانسوں کی گنتی اور مہ و سال کی گردش سے ماورا ہے۔لیکن جینے کی یہ آرزو، من کی پوترتا اور روح کی صفائی کے بغیر ممکن نہیں۔سو میں نے اس فانی زندگی کی بقیہ ساعتیں اس اسمِ اعظم کو ازبر کرنے کیلئے وقف کردی ہیں ۔جو من اور روح کو آئینہ مثال کردیتا ہےاب مجھے کسی ہجر کا چنداں خوف نہیں کہ میں عشقِ مصطفیٰﷺ کی تحویل میں آچکی ہوں،جو سراسر رحمت ہے۔مجھے یہ رحمت اپنے افکار اور کردار میں بسا کر زمانے میں محبت عام کرنی ہے۔بقا کی ضمانت کا تقاضا ہے کہ ہر ذی روح اپنے ارادے سے اس چھتری کو خود میں تلاشے اور وجود پر تان لے۔ وہ جس کے لئے کائنات کا نقشہ بنا،مخلوقات کے بتوں میں جان پھونکی گئی۔خاک پر گل و سبزہ کا فرش بچھا۔اس کائنات کو رحمت کے اس سائبان تلے آنا ہے تو بچنا ہے۔

اس ضمن میں پوری دردمندی اور خلوص کے ساتھ یہ عرض کرنے کی تمنائی ہوں کہ عشقِ مصطفٰیﷺ کے تقاضوں میں ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم آقائے دوجہاں کے ساتھ اپنی بے پایاں محبت اور عقیدت کو محض زبانی جمع خرچ تک محدود نہ رکھیں بلکہ، حسبِ توفیق، اپنی روزمرہ کی مشقِ بے سمت کو بدلیں۔طرز زندگی میں خلوص کا تپاک اور باہمی میل جول میں ہمدردی شامل کریں۔جس نور سے نسبت ہے اس سے دلوں کی تاریک بستیاں روشن کریں۔روح میں ان کے جمال کی مہک بھرنے کی مساعی کریں۔ رسولِ کریم کا قول ِ مبارک ہے کہ’’ انی بعثت لمکارم الاخلاق'' یعنی مجھے کریمانہ اخلاق کی تکمیل کیلئے مبعوث فرمایا گیا، توسوچنے کا مقام یہ ہے کہ ان کے اُمتی صرف حرمتِ رسول پر کٹ مرنے کو عین سعادت سمجھتے رہیں گے۔۔ہم بحیثیت قوم اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگیوں میں کریمانہ اخلاق کی اس دولت سے کیوں محروم ہیں جسے آقائے نامدارﷺ نے اپنی بعثت کا مقصدِ اولیٰ قرار دیا۔ میرا ایمان ہے کہ فقط کریمانہ اخلاق پر کاربند ہو کر ہی ہم دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو آنحضرتﷺکے اسوئہ حسنہ پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

تازہ ترین