• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر سال ماہ رمضان کے دوران مجھے بار بار ایک ہی سوال سوجھتا ہے کہ پکوڑوں اور سموسوں کا ہماری افطاریوں کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ یہ سلسلہ کب، کیسے اور کیوں شروع ہوا؟ اتنے گھنٹے کچھ نہ کھانے کے بعد تلی ہوئی چٹ پٹی چیزوں سے معدہ ٹھونس لینا کہاں کی شرافت، ثقافت یا ضرورت ہے؟ نہ عربوں میں اس کا رواج، نہ ایرانیوں و دیگر ان علاقوں میں اس کی روایت، جہاں اسلام عرب کے فوراً بعد پہنچا تو یہ سب برصغیر کے مسلمانوں میں کہاں سے آ گھسا؟ چلو پہلے تو ہیلتھ سے متعلق کوئی لمبا چوڑا شعور بھی نہیں تھا لیکن اب تو جم، ڈائٹنگ، کیلوریز کا بہت شہرہ ہے اور موٹاپے کو بھی صحت نہیں بیماری سمجھنا عام ہے تو پھر یہ چکر کیا ہے؟ دیگر اسلامی ملکوں کی تو عام خوراک بھی ”پھیکی پھوکی“ سی ہی ہوتی ہے اور مرچ مسالحوں کا ان کے کھانوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ”ام العرب“ تو ظاہر ہے حجاز و نجد ہے جسے آج سعودی عرب کہتے ہیں اور میں ان کی مقامی خوراک، روایتی کھانوں سے بخوبی واقف ہوں بلکہ عربوں کے گھروں میں متعدد بار کھانے کا اتفاق بھی ہوا تو کیوں نہ اس کا کھرا نپنے کی اکیڈیمک سی کوشش کریں کہ یہ غیر صحت مندانہ رویہ آیا کہاں سے؟
شاید اندر کی بات یہ ہے کہ ”ملاوٹ“ ہمارے خمیر میں ہے، صرف تاجر دکاندار طبقہ ہی ملاوٹ کا مرتکب نہیں، ہم سب بھی بڑے اہتمام بلکہ فخر کے ساتھ خود اپنی خوراک میں ملاوٹ کرتے ہیں، نتیجہ یہ کہ کوئی جینوئن، اوریجنل ذائقہ ہمارے نصیب میں ہی نہیں۔ ہمارے ”مینیو“ کا بیشتر حصہ ”ملاوٹ“ کا شہکار ہوتا ہے اور ہم اسے ذائقہ کی انتہا سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک چسکا اور چٹخارہ ہی سب کچھ ہے، چاہے صحت کا سارا ڈھانچہ چٹخ جائے۔ ہمارا ہر کھانا گوشت ہو، سبزیاں یا دالیں یا چاول مسالحوں (مصالحوں) کا ملغوبہ ہوتا ہے۔ چینی، جاپانی، عربی، ترکی، ہسپانوی، امریکی، یورپی کھانوں میں اول و آخر ترجیح یہ ہوتی ہے کہ کھانے کیلئے جو کچھ بھی تیار کیا جائے، اس کی حقیقی شکل و صورت، رنگ روپ، خوشبو اوریجنلٹی کو زیادہ سے زیادہ قائم و برقرار رکھا جائے۔ مثلاً مچھلی دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ابھی ابھی پانی سے نکالی گئی ہے جبکہ ہمارے ہاں بیچاری مظلومہ کا عشر نشر کر دیتے ہیں۔ مسالحوں کے ڈھیر میں سے کہیں اصلی مچھلی کی تہمت نظر آ جائے تو غنیمت سمجھو حالانکہ اس میں بھی مسالحے ہی ڈومینیٹ کر رہے ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں بیچارے کریلے کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ کوئی دشمن سے بھی نہیں کرتا، کریلے کو باقاعدہ چھیل چھیل کر گنجا کرنے کے بعد ایک طویل مہم کے بعد اس کا رنگ، روپ، ذائقہ، خوشبو غائب کر کے اس کے پیٹ میں قیمہ اور الم غلم مسالحے بھر کر اوپر سے دھاگا لپیٹ کر نوش جاں کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر شوکت کا خیال ہے کہ ہم کیونکہ صدیوں دیار غیر سے ”درآمد شدہ“ مجاہدین کے ہاتھوں پھینٹی کھاتے رہے، عورتوں، بچوں، مردوں کو غلام بنا کر ساتھ لے جانے کے علاوہ ہمارا غلہ بھی سنٹرل ایشیا لے جایا جاتا تھا سو جو کچھ بچتا پیٹ بھرنے کیلئے ناکافی ہوتا، قحط جیسی کیفیت ہوتی۔ ”ضرورت ایجاد کی ماں“ والے مقولے کے تحت پیٹ بھرا رکھنے کا احساس پیدا کرنے کیلئے ہم نے مرچ مسالحوں کا اندھا دھند استعمال رائج کیا کیونکہ یہ مرچیں مسالحے معدے میں ایک مخصوص سوزش کو جنم دیتے ہیں جس سے یہ Feeling ابھرتی ہے کہ شکم شریف بھرا بھرا سا ہے۔ ”دو وقت کی روٹی“ والا محاورہ بھی ایسی ہی مجبوریوں کی پیداوار ہے ہم خوراک کے خالص پن کو تباہ و برباد کرنے کے بعد اسے مسالحوں کی مدد سے نت نیا رنگ، روپ، خوشبو، ذائقہ عطا فرماتے ہیں۔ ہمارے اندر ملاوٹ کی یہ خواہش اور کمزوری منافع خوروں کی نظر بد میں بھی ہے، سو وہ ہمیں ایکسپلائٹ کیوں نہ کریں؟
چلتے چلتے اک اور دلچسپ خبر جو شاید آپ کیلئے کچھ زیادہ دلچسپی کا باعث نہ ہو۔ یہ خبر نئی نہیں خاصی پرانی ہے کہ مستقبل قریب میں ”کچن“ سمیت بہت کچھ انسانوں کی زندگیوں سے خارج ہو جائے گا اور یہ سلسلہ کب سے شروع بھی ہے۔ مثلاً میری جوانی میں ٹائپسٹ، ٹیلیکس آپریٹر بڑے ”فنکار“ سمجھے جاتے تھے، ٹیلیگرام کا بڑا مقام تھا۔ اس سے پہلے ہاتھیوں کے مہاوتوں اور ڈولیوں کے کہاروں تک، چاندی کے ورق کوٹنے والوں سے لے کر برتن قلعی کرنے اور روئی پنجنے والوں تک، چکی پیسنے، چرخہ چلانے والوں سے، چھڑکاؤ کرنے والے ماشکیوں تک، کمان گروں سے لے کر سائیسوں تک، سب کچھ قصہ پارینہ بن چکا۔ اسی طرح مستقبل میں نہ کوئی پائلٹ ہو گا اور نہ کسی گھر میں ”کچن“ کا وجود باقی رہے گا کہ نہ کوئی ”ہوم میڈ“ خوراک کی لگژری افورڈ کر سکے گا اور نہ کسی کے پاس اتنا فالتو وقت اور انرجی ہو گی کہ ہلکی آنچ پر ساری رات سری پائے، ہریسے، شب دیگیں چڑھائے رکھے۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ریڈی میڈ… Ready to Eat… پری ککڈ، دودھ جلیبی، دودھ ربڑی اور دہی بھلے کیسے ہوں گے؟
قصہ مختصر…”جو بھی ہے بس یہی ایک پل ہے“ سو جتنی کچوریاں کھانی ہیں کھا لیں… جتنے پکوڑے، سموسے اڑانے ہیں اڑا لیں… جتنے دہی بھلوں کا قتل عام کرنا ہے کر لیں کیونکہ کبھی نہ کبھی تو ”تھری شفٹ سوسائٹی“ کا وائرس اس ویلے معاشرہ تک بھی پہنچنا ہے جو دانتوں سے قبریں کھودنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا، گھسی پٹی بات ہے لیکن خوب ہے کہ کچھ لوگ زندہ رہنے کیلئے کھاتے ہیں اور کچھ صرف کھانے کیلئے زندہ رہتے ہیں۔
تازہ ترین