اسلام آباد / سکھر (نمائندہ جنگ / بیورو رپورٹ) سپریم کورٹ نے نیب کے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس‘ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ کی ضمانت کی درخواست منظور کرلی۔ انہیں ایک کروڑ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا گیا ہے تاہم ان کا نام ای سی ایل میں موجود رہے گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے آبزرویشن دی ہے کہ کیس کی سماعت کے دوران نیب حکام ملزم سیدخورشید شاہ کو حراست میں رکھنے کا مناسب جواز پیش نہیں کرسکے ہیں جبکہ دو سال تک حراست میں رکھنے کے باجود نیب ملزم کے خلاف کوئی ثبوت نہیں پیش کرسکا ہے۔
نیب کے پاس واحد ثبوت یہ ہے کہ ملزم 40؍ مرتبہ بیرون ممالک گیا ہے لیکن ان دوروں پر کتنی رقم خرچ ہوئی ہے ؟نیب کے پاس اس کا بھی کوئی حساب کتاب نہیں ہے ،کیا ملزم خود تفصیل دے گا ۔ الزامات کیا ہیں ؟
نیب ملزم کیخلاف کوئی ایک ٹھوس ثبوت دکھا دے۔ نیب پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ ملزم کے خلاف تحقیقات مکمل ہو گئی ہے لیکن سکھر میں وکلاء کی ہڑتال اور ہنگاموں کی وجہ سے احتساب عدالت میں ان کے خلاف ریفرنس دائر نہیں ہو سکا ہے ۔
ادھر ضمانت منظور ہونے کی خوشی میں سکھر، روہڑی، صالح پٹ، پنوعاقل ، کندرا سمیت دیگر علاقوں میں بڑی تعداد میں پیپلزپارٹی کے جیالے سڑکوں پر نکل آئے ، ڈھول کی تھاپ پر والہانہ رقص کیا، جشن، بھنگڑے ڈالے اور آتش بازی کا زبردست مظاہرہ کیا گیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ حکومت نے نیب کے ساتھ مل کرخورشید شاہ کو دو سال سے قید میں رکھ کرسیاسی انتقام کا نشانہ بنایا۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے جمعرات کے رروز کیس کی سماعت کی تو نیب کے پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ ملزم کے خلاف تحقیقات مکمل ہو گئی ہے، لیکن سکھر میں وکلاء کی ہڑتال اور ہنگاموں کی وجہ سے احتساب عدالت میں ان کے خلاف ریفرنس دائر نہیں ہو سکا ہے ،انہوں نے کہاکہ ملزم خورشید شاہ نے چالیس مرتبہ بیرونی ممالک کا سفر کیا ہے جبکہ انکے خاندان والوں نے بھی سو مرتبہ بیرونی ممالک کے دورے کیے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ان سے استفسار کیا کہ ملزم کے خلاف الزامات کیا ہیں؟ اور تحقیقات میں کونسے الزامات ثابت ہوئے ہیں؟ملزم کی گرفتاری کودوسال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک نیب ان پر عائد الزامات کو ثابت نہیں کرسکا ہے ،جس پر وہ کوئی ٹھوس جواب نہ دے سکے۔
فاضل جج کا کہنا تھا کہ کیا نیب کے پاس صرف یہی ایک واحد ثبوت ہے کہ ملزم چالیس مرتبہ بیرون ملک گئے تھے؟انہوں نے کہا کہ خورشید شاہ کوئی غریب شخص تو نہیں ہیں،انہوں نے اپنے اثاثوں میں خود ظاہر کیا ہے کہ ان کے خاندان کے پاس 37؍ کروڑ نقد موجود ہیں۔
دوران سماعت پراسکیوٹر نیب ملزم کے سفری اخراجات سے متعلق عدالت کے سوالات کا مناسب جواب نہ دے سکے اور موقف اپنایا کہ ملزم نے ہمیں متعلقہ دستاویزات فراہم نہیں کی ہیں ،جس پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ سفری اخراجات کا تو نیب کو خود حساب لگانا چاہیے تھا ؟
اس کی بھی تفصیل کیا ملزم کو فراہم کرنی ہے؟انہوں نے کہا کہ جب ملزم ہی آپ کی حراست میں ہے؟ تو وہ کیسے آپ کو متعلقہ دستاویزات فراہم کرے گا؟حراست میں رہ کر کسی کو فون کرکے نہیں بتایا جاسکتا ہے کہ فلاں الماری میں سے وہ دستاویز نکال کر لے آئیں۔
عدالت کی جانب سے خریدی گئی اراضی کی نوعیت سے متعلق ایک سوال پر ملزم کے وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ عبدالحفیظ پیرزادہ کے والد عبد الستار پیرازادہ نے1979ء میں1039؍ ایکڑ بنجر زمین 80؍ ہزار روپے میں خرید کر 1982ء میں آگے فروخت کردی تھی ،اوریہی زمین پھر ملزم سید خورشید شاہ نے خریدی تھی ، دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کہاکیا یہ زمین نہری ہے؟
اگر نہری زمین ہے تو اسکی ویلیو زیادہ ہو گی، اگر بارانی یا بنجر زمین ہے تو ویلیو کم ہو گی،جبکہ عدالت کے استفسار پر ملزم کے وکیل نے بتایا کہ اس اراضی کو لفٹ اریگیشن سسٹم کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے ، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب ملزم کے خلاف کوئی ایک ٹھوس ثبوت دکھا دے۔