• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت حکومت بھی مشکل میں ہے اور عوام بھی۔ حکومت اور عوام دونوں کی مشکلات روزبروز بڑھتی جارہی ہیں۔ حکومت ناتجربہ کاری، ضد، انا اورموثر حکمت عملی کے فقدان کی وجہ سے اور عوام مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے پریشان ہیں۔ خودکردہ را علاجے نیست کے مصداق حکومت کی مشکلات اور پریشانیاں اپنی پیدا کردہ ہیں۔ اس لئے ان کا علاج کسی اور کےپاس نہیں بلکہ خود حکومت کے پاس ہے۔لیکن جیسا کہ ماضی میں دیکھا گیا اور تاریخ بھی شاہد ہے کہ حکومتیں اکثر تین وجوہات کی بنا پر ناکام اور ختم ہوئی ہیں۔ ایک وجہ وقت کے حکمرانوں کی عیاشیاں جبکہ عوام اور ان کے مسائل کونظر انداز کرنا۔ دوسری وجہ ناقص حکمت عملی اور تیسری اہم وجہ نااہل، ناتجربہ کار مشیروں کے غلط مشوروں یا ان کے ذاتی مفاد کے مشوروں پرحکمران کا عمل کرنا ۔موجودہ حکومت کے بارے میں یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ یہ عیاشیوں میں مصروف ہے اور عوام کی فکر نہیں۔ ہر حکومت چاہتی ہے کہ اس کے دور میں عوام مطمئن ہوں۔مہنگائی، غربت اور بےروزگاری نہ ہو۔ یقیناً موجودہ حکومت بھی یہی چاہتی ہے۔لیکن عملی طور پرایسا ہوتا نظر نہیں آرہا بلکہ حکومت کے اقدام کا نتیجہ الٹ نکلتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی وجہ یا وجوہات جاننا اور پھر ان کا حل تلاش کرنا حکومت کے لئے نہایت ضروری ہے ۔ حکومت حل کی کوششیں تو کررہی ہے لیکن وجوہات جاننے کی کوشش نہیں کرتی۔جب تک بیماری کی تشخیص نہ ہوجائے تو علاج اور صحت یابی کی توقع بے وقوفی کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے۔

اس وقت حکومت کے پاس نہ تو ٹھوس ، جامع اور موثر حکمتِ عملی ہے اور نہ ہی درست اور خیر خواہی کے مشورے ہیں۔ اور یہی وجوہات ہیں کہ نہ مہنگائی قابو میں آتی ہے نہ ہی گورننس کی کوئی کل سیدھی ہوتی ہے، بلکہ حالات روزبروز خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں اور اب تو اس نہج پر پہنچ رہے ہیں کہ ٹھیک ہونے کے امکانات ہی معدوم ہوگئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب حکومت نے بھی کشتی کو موجوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت اب سیاسی شہادت کی متمنی ہے کہ ایسے حالات بن جائیں کہ وہ سیاسی شہادت کے درجہ پر فائز ہوجائے اور اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ کل کے لئے کوئی جواز اور منہ متھا رہ جائے گا۔ اس بات میں کتنی حقیقت ہے یہ تو حکومت ہی جانتی ہے۔لیکن حالات بہرحال اچھے نہیں ہیں۔ آنیوالے وقت میں حکومت اور عوام دونوں کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے خصوصاً نومبر کے مہینے میں واضح اثرات نظر آنا شروع ہوسکتے ہیں بلکہ شروعات تو ہوچکی ہیں۔ ایک اچھی اطلاع یاخبر یہ ہے کہ حکومت اب کسی بھی وقت آئی ایس آئی چیف کی تقرری کا نوٹیفیکیشن جاری کردے گی اور امکان ہے کہ یہ تعیناتی آئی ایس پی آر کے اعلان کے مطابق ہی ہوگی ۔ آگے کیا ہوگا یہ تو فی الحال نہیں کہا جاسکتا۔لیکن ہوگا وہی جو کائنات کا مالک چاہے گا۔ انسانی خواہشات سے تو نظام قدرت نہیں چلتا۔ البتہ حکومت نے اس تعیناتی میں روڑے اٹکا کر کچھ اچھا نہیں کیا۔

جہاں غلط مشورے ہوں گے وہاں نتائج بھی غلط ہی نکلیں گے۔ عوام کو سبز باغ دکھانے سے حکومتیں نہیں چلتیں۔غلط اعدادوشمار بتانے سے عوام کو گمراہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے فوائد کبھی سامنے نہیں آسکتے۔یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ سابقہ حکومتیں جب آئی ایم ایف کے پاس جاتی تھیں تو کہا جاتا تھا کہ یہ کشکول لئے پھرتے ہیں اور اپوزیشن کہتی تھی کہ اگر ہم برسر اقتدار آئے توہم کشکول توڑدیں گے لیکن وہی کام برسر اقتدار آنے کے بعد زیادہ اہتمام سے کرتےہیں۔موجودہ حکمران بھی جب اپوزیشن میں تھے تو یہی کہا کرتے تھے بلکہ یہ تو آئی ایم ایف کے پاس جانے پر خودکشی کو ترجیح دیتے تھے لیکن اب سابقہ وزیر اور موجودہ مشیر خزانہ گورنر اسٹیٹ بینک امریکہ سے قوم کو’’خوشخبری‘‘ دیتے ہیں کہ عوام کو جلد مبارک دینے والے ہیں کہ آئی ایم ایف قرضے کی چھٹی قسط دینے پر جلد راضی ہوجائے گا۔ اس کو شرمناک اور افسوسناک کہاجائے یااس کو خوشخبری اور قابل مبارکباد کہاجائے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر آئی ایم ایف کی طرف سے قرضے کی چھٹی قسط مل جائے تواس سے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ حکومت کے لئے تو یہ باعث مسرت ہوسکتا ہے لیکن آئی ایم ایف کی شرائط میں مزید سختی کیو جہ سے عوام مزید مہنگائی کے لئے تیار رہیں۔ اسی طرح آنیوالی سردیوں میں گیس کی نہ صرف شدید قلت ہوگی بلکہ اس کے نرخوں میں ناقابل برداشت اضافے کی وجہ سے واقعی عوام کی چیخیں نکلیں گی۔ حکومت نے مہنگائی کے توڑ کے لئےیوٹیلیٹی اسٹورز پرٹارگٹڈ سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس قسم کے علامتی اقدامات سے نہ تو عوام کو کوئی ثمر مل سکتا ہے اور نہ ہی حکومت کی ایسی کوششیں کامیاب ہوسکتی ہیں بلکہ لوگ تو اس قسم کے ہوائی اعلانات کو ناممکن، بے فائدہ بلکہ اپنےساتھ مذاق سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن نے بھی مہنگائی اور حکومت کے خلاف اپنی تحریک کا آغاز کردیا ہے اور اس بار اس تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانے کا پختہ ارادہ ظاہر کیا ہے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ بالآخر پیپلز پارٹی بھی اس تحریک کاحصہ بن جائے گی۔ حکومت کو اب مزید مشکلات پیش آسکتی ہیں اور آنیوالے مارچ تک بہت کچھ تبدیل ہوسکتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین