اخبارات کی تشریف آوری کے بعد میرا چہیتا چپڑم ان کے حصے بخرے کردیتا ہے یعنی ادارتی صفحات و دیگر علیحدہ علیحدہ۔ اتوار ہو تو سنڈے میگزینز بھی علیحدہ۔ سب سے پہلی نیوز دیکھ کر ان میں سے ضروری خبریں ہائی لائٹر سے علیحدہ کر دیتا ہوں تاکہ بوقت کالم کام آئیں۔ اتوار ہو تو سرسری سی نظر سنڈے میگزینز پر ڈالتا ہوں کیونکہ وہ اکثر وبیشتر اس قابل ہوتے ہیں۔ آخر پر ’’کچرے‘‘ سے بچ بچا کر انتہائی ریلیکسڈ حالت میں اپنے پسندیدہ کالمز پڑھتا ہوں جو ’’ڈیوٹی‘‘ سے زیادہ خوشی بلکہ سرخوشی کاباعث ہوتے ہیں۔ اللہ عطاء الحق قاسمی کو صحت کے ساتھ عمر خضر عطا فرمائے۔ پہلا کالم عطا کا ہوتا ہے یعنی ’’عطا دکھا مرا موڈ بنے‘‘۔ عطا کا کالم ہو، بلیک کافی ہو اور اپنے فیورٹ برانڈ کا سگریٹ ہو تو اس سے سہانی صبح کیا ہوسکتی ہے لیکن جمعرات 21 اکتوبر 2021کو بات الٹی پڑ گئی۔ عطا ہاتھ کرگیا ’’صاحب رفعت شاعر‘‘ کے عنوان سے اجمل نیازی مرحوم پر لکھے اس کے کالم نے مجھے مزید ڈپریشن میں دھکیل دیا کیونکہ اس سے پچھلے دن اور تقریباً آدھی رات تک میں ریسرچ کا شہکار ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی ایک ’’ڈرائونی‘‘ سی کتاب مکمل کرکے فارغ ہوا تھاجس کا عنوان ہے . . . ’’وفیاتِ مشاہیر لاہور‘‘۔
’’خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں‘‘
اور اس سے بھی بڑھ کر
زیر زمیں بھی روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے
اور اس سے بھی بڑھ کر یہ زندگی؟
زندگی کتنی خوب صورت ہے
لیکن اک خواب کی مہورت ہے
مختصراً یہ کہ عجیب قسم کی اداسی کا شکار تو میں پہلے ہی تھا۔ اوپر سے اجمل نیازی، مرے کو ماریں شاہ مدار کے مصداق کوئی کسر رہ گئی تھی تو عطا نے پوری کردی اور یوں میں نے ڈاکٹر اجمل نیازی پر کچھ لکھنا بھی تھا تو اب نہیں لکھوں گا کیونکہ جو لکھا جا سکتا تھا،لکھا گیا اور دوسری بات یہ کہ اجمل نیازی سے میری دوستی نہیں، شناسائی سی تھی، سو میں کوالیفائی ہی نہیں کرتا۔ چند دن تھے جو ڈاکٹر اجمل نیازی، حفیظ اللہ نیازی، توفیق بٹ اور میں نے ترکی میںا کٹھے گزارے اور بس .…لیکن ’’وفیاتِ مشاہیر لاہور‘‘ کےتازہ تازہ مطالعہ اور اجمل نیازی کی رخصتی نے اداسیوں کی دلدل میں دھکیل دیا ہے ۔ ویسے یہ کوئی بہت نئی بات نہیں کیونکہ مجھ پر اس قسم کے دورے پڑتے رہتے ہیں اور شاید اسی لئے مدتوں پہلے مستنصر حسین تارڑ نے لکھا تھا کہ میرے اندر بہت ہی شدید قسم کی ’’ڈیتھ وش‘‘ موجود ہے…’’خواہش مرگ‘‘
’’خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا‘‘
اور جو شکیب نے کہا
اس مرحلے کو موت بھی کہتے ہیں دوستو
اک پل میں ٹوٹ جائیں جہاں عمر بھر کے ساتھ
شکیب جلالی نے یونہی خودکشی نہیں کی ہوگی کہ اک خاص مرحلہ میں تو حرام بھی حلال ہو جاتا ہے اور بہت سارے رولز ریلیکس کردیئے جاتے ہیں۔
’’وفیاتِ مشاہیر لاہور‘‘ زیر مطالعہ کیا صرف سامنے ہی پڑی رہے تو بندے کو بندہ بنا سکتی ہے۔ فانی ہونے کی مسلسل یاد دہانی کسی بھی پھنے خان کا پھن پھیلنے سے پہلے کچل سکتی ہے۔ معمولی گھٹیا ترین مٹی کی چلتی پھرتی ڈھیریوں نے معاشرہ کی جان عذاب میں مبتلا کررکھی ہے ۔ ایسا ایسا تکیہ کلام ایجاد کر رکھا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ ’’بندہ کبندہ‘‘ جیسے کسی ماں نے نہ جنا ہو، درخت پر اگایا، آسمان سے ٹپکاہو، سر پہ سنہری سینگ اور پیچھے دم ہو۔ جہاں فیض، منیر، ندیم قاسمی، صوفی تبسم، ن،م راشد، منٹو، اشفاق احمد، انتظار حسین، ناصر کاظمی نہ رہے . . . . جہاں نور جہاں، امانت علی خان نہ رہے، جہاں خواجہ خورشید انور اور بابا چشتی نہ رہے، جہاں سنتوش کمار، درپن، محمد علی، وحید مراد نہ رہے، جہاں یاور حیات ، نصرت ٹھاکر نہ رہے، جہاں فضل محمود اور منیر ڈار نہ رہے، جہاں نوابزادہ نصر اللہ اور ملک معراج خالد کی آرام گاہوں کے رستے سُونے ہوگئے۔ جہاں نذر، منور ظریف، ننھا، رنگیلے کے قہقہے ابدی نیند سو گئے، جہاں نواب مشتاق گورمانی اور نواب سر مظفر علی خان قزلباش کی قبریں ڈھونڈے سے نہ ملیں، جہاں چیف جسٹس محمد منیر اور جسٹس نسیم حسن شاہ کا سن کر لوگ پوچھیں ’’یہ کون تھے؟‘‘ جہاں غلام احمد پرویز رہیں نہ مولانا مودودی، نہ غلام بھیک نیرنگ، نہ غلام رسول مہر کا نام کسی کو یاد ہو، نہ ساگا، نہ شگن، نہ شاہیا، نہ گاماں، نہ منوبھائی، نہ عباس اطہر، نہ جنرل شاہ رفیع عالم ، نہ شبیر شریف نشان حیدر، نہ راگنی، نہ رانی، نہ جی اے گل، نہ شباب کیرانوی، نہ شاعر حبیب جالب ، نہ آئی جی پولیس حبیب الرحمٰن، نہ اداکار حبیب ۔
کچھ بھی نہیں .…سب اک گورکھ دھندا ہے، اک پھندا ہے۔
بال بکھرائے ٹوٹی قبروں پر
جب کوئی مہ جبین روتی ہے
مجھ کو ہوتا ہے اس گھڑی احساس
موت کتنی حسین ہوتی ہے
لیکن جتنی بھی حسین ہو … موت موت ہی ہوتی ہے۔ سناٹا اور اداسی، اداسی مری محبوبہ، اداسی میری داسی!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)