صفیہ سلطانہ صدیقی
فائزبھائی کی شادی ہو رہی تھی۔ ان کا کمرہ بہت خوبصورتی سے سجا یا گیا تھا۔ نمرہ اور حمیرا نے سب انتظامات کا جائزہ لیا کیوں کہ آج شادی کا دن تھااور بارات جانے والی تھی۔
دولہا کے خالہ زاد بھائی جمیل کی پھولوں کی دوکان تھی ۔وہ ٹوکرےبھر کر پھول پتیاں لے کر آئے تھے، لگتا تھا وہ اپنی پوری دوکان خالی کرکے فائز کے گھر میں لے آئے تھے۔ نو سالہ حمزہ ،بھائی کی شادی کی خوشی میں جھوم رہا تھا۔ اس نے تین دن میں ہر روز امی سے ایک ہی سوال کیا تھا، ’’امی! ربیع الاول کے مہینے میں شادی کرتے ہیں کیا؟‘‘
امی نے ہر مرتبہ مسکرا کر جواب دیا تھا ’’ہاں بیٹے! یہ ہمارے پیارے نبی محمدؐ کی آمد کا مبارک اور خوشی کا مہینہ ہے۔
نمرہ آپی، فائز بھائی کے کمرے کو روشن کرکے آخری مرتبہ جب جائزہ لینے گئیں تو دیکھا کہ خوش نما پھولوں سے سجی ٹوکری ،کارنر سے غائب ہے۔ ’’ہائیں! یہ کہاں چلی گئی؟‘‘ وہ حیرانی سے خود ہی سے سوال کرنے لگیں۔ اتنی دیر میں حمیرا اندرداخل ہوئی اور صحن میں امی کو دیکھ کر بولی کہ گاڑیاں آچکی ہیں اب آپ کتنے انتظامات دیکھیں گی یہاں سب ٹھیک ہے۔ آپ باہر آئیں جلدی۔ یہ کہہ کروہ واپس پلٹنے لگی کہ نمرہ آپی نے اس سے پوچھا:
’’ حمیرا! پھول کہاں ہیں، سائیڈ ٹیبل پر رکھے تھے‘‘؟ حمیرا نے جواب دیا، ’’ ادھر ہی تو تھے، میں نے کچھ دیر پہلے حمزہ کو یہاں آتے دیکھا تھا! جبھی سے حمزہ بھی غائب ہے اور پھول بھی! مگر اسے پھولوں سے بھلا کیا کام ہوگا‘‘؟
اب آپی کوحمزہ کی فکر پڑ گئی، انہوں نے حمیرا سے کہا، ’’ارے! پھولوں کو چھوڑو حمزہ کو تلاش کرتے ہیں، میں نے بھی اسے کافی دیر سے نہیں دیکھا‘‘۔
دونوں بہنیں گھبرا کرباہر نکلیں۔ سب سے پہلے حمزہ کے کمرے میں گئیں تو دیکھا کہ حمزہ بڑی والی تھالی اور پھولوں کی ٹوکری سنبھالے اپنے بستر پر کسی کام میں مصروف ہے۔
’’یہاں کیا کر رہے ہو تم، بارات روانہ ہونے والی ہے ،کیا جانا نہیں ہے‘‘؟ نمرہ آپی نے اس کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔حمزہ نے جواب دیا ،’’میں اپنے بھائی ، بھابھی کو یہ تحفہ دوں گا‘‘۔ دونوں بہنوں کی نظریں تھالی کی طرف گئیں۔
گلاب کے مہکتے پھولوں اور حسین کلیوں سے حمزہ نے بڑے خوب صورت انداز میں اسم مبارک ’’محمدؐ ‘‘ لکھا تھا۔ دونوں بہنوں نے ایک دوسرے کو تعجب سے دیکھا اور پھر چھوٹے بھائی کا ماتھا چوم لیا۔ بہت خوبصورت تحفہ ہے یہ تو! چلو آئو اس کو کمرے میں سجا کر آتے ہیں!
آپی نے پیار سے اس کا ہاتھ پکڑا۔ جی آپی! میں نے اس میں چالیس پھول لگائے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اب میں ربیع الاول کے مہینے میں چالیس حدیثیں یاد کروں گا امی نے بتایا تھا کہ جو بھی چالیس حدیثیں یاد کرے گا وہ جنت میں جائے گا۔
حمزہ نے خوشی سے اطلاع دی اور بھائی بھابھی کاتحفہ کمرے میں سجا کر آگیا۔ دولہا دولہن کو تمام تحفوں میں سب سے زیادہ پیارا اور پسندیدہ حمزہ کا تحفہ ہی لگا تھا۔