محمد اسلام
بچو: یہ تو آپ جانتے ہوں گے کہ انسانوں کی طرح جانوروں اور پرندوں کو بھی پیاس لگتی ہے۔گرمی کے موسم میں بعض لوگ پرندوں کی پیاس بجھانے کا خاص اہتمام کرتے ہیں اور اپنی کھڑکی اور بالکونی یا چھت پرکسی برتن میں پانی ڈال کررکھ دیتے ہیں جہاں پرندے آکر اپنی پیاس بجھاتے ہیں اور جو پرندے آبادیوں سے دور ہوتے ہیں، وہ پانی کے تالاب، جوہڑ وغیرہ پرجمع ہوتے ہیں اور وہاں پانی پیتے ہیں۔
آبادی سے دور ایک ایسا ہی تالاب تھا، جہاں چیل ،کوے،کبوتر،باز، بلبل، مینا اور چڑیاں جوق درجوق آتے تھے۔ پانی توسب ہی پرندے پیتے تھے مگر بعض پرندے تالاب میں ڈبکی لگاکر نہاتے بھی تھے ۔ وہاں جب پرندے جمع ہوتے تھے تواپنا حال دل بھی ایک دوسرے کو سناتے تھے۔ کبوتر اپنی دن بھر کی کہانی چڑیا کو سناتا، چڑیا اپنا حال ِدل فاختہ کو بتاتی،کوا اور کبوتر بھی اپنی اپنی مصروفیت پرتبادلہ خیال کرتے۔
ایک روز تالاب پرچند پرندے موجود تھے جن میں کوا،چڑیا اور فاختہ بھی شامل تھی۔ مگر آج کبوتر کہیں نظرنہیں آرہا تھا، لہذا سب کو تشویش ہوئی کہ کہیں کبوتر کسی مشکل میں گرفتار نہیں ہوگیا ہو۔ پرندوں کی تشویش بالکل بجا تھی کیوں کہ انہوں نے دیکھا کہ کبوتر فضا میں اڑنےکی بجائے تالاب کی جانب بہ مشکل اچھلتا کودتا آرہا تھا۔ جب وہ قریب آیا، تو چڑیا نے اس سے اس کا حال پوچھا، جس پر کبوتر نے بتایا کہ آج ایک شرارتی لڑکے نے مجھے پکڑنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے مجھے بری طرح دبوچ لیاتھا، میں بہ مشکل اس کی گرفت سے آزاد ہوا مگر اس کھینچا تانی میں میرے کئی پرٹوٹ گئے۔
پھر مجھے شدید پیاس محسوس ہوئی تو میں بڑی ہمت کرکے تالاب تک آیا ہوں۔ چڑیا نے کبوتر کو تسلی دی اور اس کی ہمت کی داددی۔ مگر بچوں پھر کیا ہوا، ہوا یہ کہ کبوتر کی کہانی سن کر کوے نےاس سے ہمدردی کرنے کی بجائے اس کا خوب مذاق اڑایا اور اسے پر کٹا کبوتر کہہ کر بار بار چھیڑتا رہا۔کوا کبھی چڑیا کے پاس آتا اور کبوتر کو مخاطب کرکے اسے پرکٹا کبوتر کہتا اور کبھی کبوتر کے قریب جاتا اور اسے چھیڑتا ’’پر کٹا…کبوتر‘‘۔ وہ ہنستا جاتا تھا اور پرکٹا کبوتر کہتا جاتا تھا۔
کبوتر کو یہ سب کچھ بہت برا لگ رہاتھا۔چڑیا نے کوے کو سمجھایا کہ ،’’کوے میاں غور سے میری بات سنو! یہ جو تم کبوتر کو برے القاب سے پکار رہے ہو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے تمہیں اس سے ہمدردی کا اظہار کرناچاہیے ۔لیکن تم نے کبوتر کو برے القاب سے پکارا ہے اور اس کا تمسخر اڑا کردلآزاری کی ہے، یہ نہایت بری بات کی ہے‘‘۔ مگر کوے میاں نے چڑیا کی نصیحت کا بھی خوب مذاق اڑایا اور پھر وہ فضائوں میں اڑگیا۔
اس بات کو چند دن ہی گزرے تھے، تالاب کے گرد تمام پرندے جمع تھے، مگر کوے میاں کا کوئی پتہ نہ تھا۔ سب ہی پرندوں کو تشویش تھی کہ کوے میاں کہاں رہ گئے۔چڑیا نے فاختہ سے پوچھا تواس نے بھی اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ اس دوران کوا اڑتا ہوا آیا اور تالاب پر آکر بیٹھ گیا۔ لیکن بچوں پتہ ہے آج اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ چلئے آپ اسی کی زبانی سن لیجئے! کوے نے بتایا کہ ایک شخص نے اسے پکڑنے کی کوشش کی تھی۔
وہ اس کی گرفت سے نکلنے کی پوری کوشش کررہا تھا مگر اس شخص نے اسے بری طرح دبوچ لیاتھا۔ کوے میاں نے بتایا کہ اس نے پوری طاقت استعمال کرکے اس شخص کے ہاتھوں کی مضبوط گرفت سے خود کو آزاد کرالیا۔ مگر اس دوران کوے میاں کی دُم کے سارے پر اس شخص کے ہاتھ میں رہ گئے، مگر کوے میاں خوش تھے کہ ان کی جان بچ گئی،کبوتر جو پوری توجہ سے کوے میاں کی کہانی سن رہا تھا، اس نے کوے میاں کی بات مکمل ہوتے ہی زور سے نعرہ مارا ’’دم کٹا کوا، دم کٹا کوا‘‘۔جس پر فاختہ بھی زور زور سے بولنے لگی دم کٹا کوا، دم کٹا کوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے باقی پرندے بھی ان کے ہم نوا بن گئے۔
بچوں جب’’ دم کٹا کوا ‘‘کا شور بلند ہوا تو کوے کو بہت برالگا اور وہ پریشان دکھائی دینے لگا لیکن چڑیا کا رویہ بہت مثبت تھا۔اس نے سب پرندوں کو سمجھایا کہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارنا بالکل بھی اچھی بات نہیں ہے۔ لہذا کوے میاں کے ساتھ یہ سلوک بند کیا جائے۔ لیکن کبوتر ، فاختہ، بلبل، مینا، چیل اور دیگر پرندے شور مچاتے رہے کہ دم کٹا کوا، دم کٹا کوا…پھر چڑیا نے انہیں یاد دلایا کہ کوے میاں نے کبوتر کا مذاق اڑایا تھااور پرکٹا کبوترکہہ کرچڑایاتھا، اب آپ اس کا انجام خود ہی دیکھ لیں۔ آج کوے کی دم کٹ چکی ہے کیا آپ چاہیں گے کہ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو یہ سن کر سب پرندے چپ ہوگئے ۔ چڑیا کی نصیحت سن کر سب پرندوں نے کوے سے معذرت کرلی اور خوشی خوشی فضا میں اڑ گئے۔