روشنیوں کے شہر کراچی میں ہر رنگ و نسل کے لوگ بستے ہیں۔ یہاں کا سمندر اور سمندری حیات پوری دنیا میں مشہور ہے‘ کراچی کی ایک خصوصیت اس کا بحیرہ ارب کا طویل ساحل بھی ہے۔
کراچی کے اس ساحل کی اہمیت کے پیش نظر یہاں ایک سو تیس ایکڑ اراضی پر باغ ابن قاسم کے نام سے پاکستان کا ایک بڑا پارک واقع ہےجو اپنی وسعت‘ اپنی خوبصورتی اور ڈیزائن کے اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اس وسیع و عریض تفریح گاہ کا نام صوبہ سندھ میں اسلام کی روشنی پھیلانے والے محمد بن قاسم کے نام پر باغ ابن قاسم رکھا گیا۔ 1920ء میں اس مقام پر ایک راہداری جو سمندر تک جاتی تھی کلفٹن کراچی کے حوالے سے مشہور ڈوم اور جہانگیر کوٹھاری پریڈ تعمیر کیا گیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا پارک بھی بنایا گیا تھا جہاں شہری آکر اس راہداری سے سمندر کا نظارہ کیا کرتے تھے۔یہ کراچی کے ایک مخیر شخص جہانگیر ایچ کوٹھاری کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ 1920ء میں اس پارک کا سنگ بنیاد عزت مآب لیڈی لائڈ(Lady Lloyd)نے رکھا تھا۔ اس پارک پر ہونے والے اخراجات جو تین لاکھ روپے تھے کراچی کے شہریوں نے جہانگیر ایچ کوٹھاری کے توسط سے جمع کیے جو کراچی کے شہریوں کا اپنے شہر سے محبت کا ایک جذبہ اور تحفہ تھا۔
ہر ایکسی لینسی لیڈی لائڈ (Her Excellency The Lady lloyd)نے 21مارچ 1921ء کو اس کا باقاعدہ افتتاح کیا اور شہریوں کے لیے کھولنے کا اعلان کیا۔ 85سال تک یہی پارک شہریوں کے استعمال میں رہا اور ملک کے کونے کونے سے کراچی آنے والے لوگ کلفٹن میں واقع یہ پارک اور ساحل کا حسین منظر دیکھنے کے لیے ضرور آتے۔کراچی میں بننے والی تقریباً تمام ہی فلموں میں کلفٹن میں واقع اس ڈوم کو کراچی کی پہچان کے طور پر فلمایا گیا۔ فلموں کے کئی گانے اسی پارک میں شوٹ کیے گئے جس سے فلم دیکھنے والے کو اندازہ ہوجاتا تھا کہ اس فلم کی شوٹنگ کراچی میں کی گئی ہے۔
2005ء میں بلدیہ عظمیٰ کراچی نے فیصلہ کیا کہ اس پارک کو وسعت دی جائے اور یہاں اس کی تعمیرات سے ہم آہنگ ایک وسیع و عریض پارک تعمیر کیا جائے لہٰذا اس مقام کو قابل دید اور پرسکون مقام بنانے کے لیے 2006ء میں اس پارک کی تعمیر کا آغاز کیا ،باغ ابن قاسم کی 1920ء کی تعمیرات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس پارک کا نقشہ تیار کیا گیا۔
جہاں یہ خوبصورت پارک تعمیر کیا گیا ہے یہاں سینکڑوں کی تعداد میں نہ صرف تجاوزات تھیں بلکہ نام نہاد بڑے بڑے لوگوں نے یہاں کی قطعہ اراضی کو اپنے نام الاٹ بھی کرا رکھا تھا۔ یوں پارک کا مجموعی رقبہ ایک سو تیس ایکڑ سے کم ہو کر صرف 56ایکڑ رہ گیا تھا۔ اس سلسلے میں سندھ کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان نے پارک کی تعمیر میں اپنی بے انتہا دلچسپی کا اظہار کیا اور تجاوزات کو ختم کرنے میں اپنا موثر کردار ادا کیا اور مختلف اوقات میں اس پارک کا دورہ کر کے متعلقہ افسران کو ہدایت دی اور تعمیر میں حائل رکاوٹوں کو اپنی ذاتی کوششوں سے ختم کیا‘ یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ سابق گورنر سندھ نے اس پاک کی تعمیر کے دوران 63مرتبہ یہاں کا دورہ کیا۔ دنیا کے چالیس سے زیادہ ملکوں کے سفارتکار اس پارک کے تعمیراتی کام کو دیکھنے کے لیے پارک آئے۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف 3مرتبہ اس پارک کے کاموں کے معائنہ کے لیے از خود تشریف لائے۔
450سے زائد تجاوزات کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اس کی تعمیر کا کام بھی جاری رکھا گیا اور تیزی سے تکمیل کے لیے یہاں24گھنٹے کام کیا گیا‘ یوں ایک سال کی مدت میں یہ پارک تکمیل کے مراحل کو پہنچا۔ پورے باغ میں جہاں جہاں پتھر کا کام کیا گیا وہ سب یہاں پر موجود قدیم کوٹھاری پریڈ کے ڈیزائن اور رنگ کے مطابق ہے۔
پارک میں دونوں جانب گھاس کے بڑے بڑے قطعات بنائے گئے ‘ کناروں پر بیٹھنے کے لیے نشستیں رکھی گئیں‘ ان نشستوں کی کل تعداد (3000) تین ہزار ہے اس کے علاوہ باغ ابن قاسم میں 20پتھر کی کینوپیز(چھتریاں) بھی ایک دلکش منظر پیش کرتی ہیں۔ رات کے وقت معقول روشنی کے لیے پورے باغ میں 1500برقی قمقمے ‘24لائٹ ٹاورز اور ارینہ لائٹس بھی لائی گئیں جن سے پورا باغ رات کے وقت دن کا منظر پیش کرتا ہے۔ باغ ابن قاسم میں صفائی کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے‘ پورے باغ میں 3000ڈسٹ بن نصب ہیں۔
پاکستان کے سب سے بڑے ساحلی تفریح پارک باغ ابن قاسم میں بچوں کی تفریح کے لیے دو ایکڑ رقبے پر امیوزمنٹ پارک تعمیر ہے جس میں جدید اور محفوظ جھولے اور دوسری سہولتیں میسر ہیں۔ باغ ابن قاسم میں قدرتی ماحول کو مستقل بنیادوں پر صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک رکھنے کے لیے 9000کرونا کارپس کے درخت اور یوفوربیا کے 3000پودے لگائے گئے۔ موسم بہار کے لیے سیزنل فلاورز کی کیاریاں بنائی گئی ہیں۔ اس پارک کی شان و شوکت کو دوبالا کرنے کے لیے تھائی لینڈ سے منگائے گئے بوگن ویلا کے ایسے پودے جن کی عمر 50سال سے زائد ہے لگائے گئے۔
کئی درخت ایسے بھی ہیں جن میں گرافٹنگ کی گئی اب ایک درخت کئی کئی رنگوں کے پھول دیتا ہے۔ اس باغ میں لگائے گئے مختلف اقسام کے درآمد شدہ ایسے پودے جنہیں مختلف جانوروں کی شکل میں تراشا گیا، اس پارک کو سیوریج کے ٹریٹڈ واٹر سے سیراب کیا جاتا ہے جس سے شہر کے میٹھے پانی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ بزرگ شہریوں اور ایسے لوگ جو زیادہ چلنے پھرنے کے قابل نہ ہوں اُن کے لیے ریمپ بنائے گئے ہیں۔ یہاں پر 24باتھ رومز ہیں جہاں پر چین سے درآمد شدہ 18واش بیسن ‘ہینڈ ڈرائرز اور سینٹری استعمال کی گئی ہے۔
باغ ابن قاسم میں دو بڑی مساجد ‘ ایک قدیم مندر اور حضرت عبداللہ شاہ غازی کا مزار آنے والے شہریوں کی تسکین کا باعث ہے اور اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کی مکمل سہولت موجود ہے۔ عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے اردگرد سے بھی تجاوزات کا خاتمہ کر کے اس کے اطراف خوبصورت دیوار تعمیر کی گئی ہے۔جبکہ بحریہ ٹائون کے تعاون سے مزار کی تعمیر کا کام جاری ہے جس پر 50کروڑ روپے لاگت کا تخمینہ ہے۔پارک میں 1960ء سے تعمیر شدہ مچھلی گھر بھی واقع ہے جہاں مختلف اقسام کی سمندری مخلوق کو شیشے کے جاروں میں رکھا گیا ہے ۔
پارک کی تعمیر سے لے کر تاحال یہ مچھلی گھر تزئین و آرائش نہ ہونے کے باعث بند تھا لیکن اب یہ فیصلہ ہواکہ اس مچھلی گھر کو فوری تعمیر کیا جائے۔پارک دیکھتے ہی دیکھتے صحرا سے گلشن میں تبدیل ہوا۔ یہاں روشنیوں کی چمک‘ لہلہاتے درخت‘ حد نظر بچھ اہوا قالین نما سبزہ‘ خوبصورت آہنی دروازہ‘ بہترین واش روم‘ دیدہ زیب پاتھ‘ مہکتے پھول‘ چٹکتی کلیاں ہر آنے والے کو خوش آمدید کہتی ہیں اور انسان اس باغ کو دیکھ کر بے ساختہ ’’سبحان اللہ‘‘ کہہ اٹھتا ہے۔
باغ ابن قاسم میں بیک وقت 3لاکھ افراد کو تفریح کی سہولتیں میسر ہیں۔ پارک کے چاروں جانب کار پارکنگ کی سہولت ہے۔ پارک کی تعمیر کا غاز ہوا تو اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اس بات کا اہتمام کیا کہ پارک کی تعمیر پر روز تصاویر اور ویڈیو بنائی جائے تاکہ تمام مراحل کا ریکارڈز رکھا جا سکے۔ پارک کی تکمیل تک اس پارک کی 12ہزار تصاویر اور ویڈیو کیسٹ بنائی گئیں۔ افتتاح کے موقع پر اس پارک سے متعلق دستاویزی فلم اور ایک خوبصورت اور دلکش مجلّہ شائع کیا گیا۔
یہ پارک پورے پاکستان کے لوگوں کے لیے سب سے بڑی تفریح گاہ ہے ۔ اس پارک کی بیرونی دیوار اس انداز سے تعمیر کی گئی ہے کہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے بھی آپ پورے پارک کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ یہ سمندر کی جانب کراچی کا گیٹ وے ہے اور کراچی کے ساحل کی خوبصورت کو اجاگر کرنے میں انتہائی اہم ہے ‘ اس باغ نے یقینا ساحل سمندر کے اس حصے کو چار چاند لگا دیے ہیں اور یہاں تفریح کی غرض سے آنے والوں کو اب پہلے سے کہیں زیادہ لطف محسوس ہوتا ہے۔