آج پولیو کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی جی پی ای آئی (Global Polio Eradication Initiative) اور شراکت دار پولیو کے خاتمے کیلئے کی جانے والی کوششوں کو سراہ رہے ہیں اور درپیش چیلنجز کے خاتمے کیلئے سرگرمِ عمل ہیں۔ رواں سال پبلک ہیلتھ کے لئے ایک مشکل رہا سال ہے۔دنیا میں پاکستان اور افغانستان پولیو وائرس سے متاثر آخری دو ممالک رہ گئے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق ویکسین سے ختم ہونے والی بیماری سے دونوں ممالک میں رواں برس صرف دو بچے معذور ہوئے ہیں جبکہ 30برس قبل ہر سال ساڑھے تین لاکھ کے لگ بھگ کیسز رپورٹ ہوتے تھے۔ رواں برس تاریخ کے سب سے کم ترین کیسز رپورٹ ہوئے۔ میڈیا سمیت دوسرے لوگ ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ کیا ہم پولیو وائرس کے خاتمے کے قریب ہیں؟یہ تاریخی کامیابی راتوں رات نہیں ملی بلکہ پولیو کے خاتمے کے لئے دن رات کام کرنے والے اداروں اور کارکنوں کی محنت کا نتیجہ ہے ۔ ہمارے پاس پولیو جیسے موذی وائرس کے مکمل خاتمے کا سنہری موقع موجود ہے۔ آخری منزل کے حصول کیلئے مزید محنت درکار ہے ، اس طرح کا سنہری موقع دوبارہ نہیںملے گا۔
ہم سب کو یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ سال کا آغاز ہمارے خطے میں کورونا کی دوسری لہر کی تباہ کاری سے ہوا تھا۔ سال کے آغاز میں سارا خطہ کورونا وبا کی لپیٹ میں تھا۔ پاکستان انسدادِ پولیو پروگرام ایک طرف پولیو وائرس جبکہ دوسری جانب کورونا وبا پر قابو پانے کیلئے تگ و دو کررہا تھا۔سال 2020 میں کورونا وبا کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان میں ویکسین کے عمل کو چار ماہ کیلئے روکا گیا تھا، اس دوران ٹیکہ جات کا عمل بھی متاثر ہوا تھا کیونکہ لوگ گھروں سے باہر نکلنے سے گریز کرتے تھے۔ تاہم اس دوران ہم پرامید تھے کہ پاکستان میں بہترین طور پر مہم چلائیں گے۔ پروگرام نےخصوصی طور پر ہائی رسک یونین کونسلوں کی نشاندہی کی اور وہاں کسی نہ کسی وجہ سے رہ جانے والے بچوں پر توجہ دی گئی اور ان کو پولیو کے حفاظتی قطرے پلوانا یقینی بنایاگیا۔
رواں برس اب تک پاکستان اور افغانستان میں وائلڈ پولیو وائرس کا ایک ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔ ہمارے نگرانی کے نظام کے مطابق گٹر کے پانی میں پولیو وائرس میں بڑی حد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس طرح اے ایف پی کیسز میں بھی پولیو کے آثار/وائرس نہیں پایا گیا ۔ تاہم ہمارا نگرانی کا نظام یہ بتاتا ہے کہ وائرس چھپا ہوا ہے اور بچوں پر حملے کرنےکے لئے موقع کی تاک میں ہے۔
آج 24اکتوبر پولیو کے عالمی دن کے موقع پر ہمیں یہ بات سمجھنی ہے کہ اس برس تاریخ کے سب سے کم کیسز رپورٹ ہونا کوئی معجزہ نہیں ہے بلکہ یہ لاکھوں ورکروں کی انتھک محنت، جہد ِمسلسل اور بہترین حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے۔ممکن ہے کہ ہم سے کچھ پولیو کیسز رپورٹ ہونا رہ گئے ہوں تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم پولیو کے خاتمے کیلئے حد درجہ کوشش کررہے ہیں اس سے پہلے کہ وائرس کا پھیلاؤ ہمارے لئے حیران کن ہو، اس کے مکمل خاتمے کو یقینی بنایا جائے ۔ پولیو وائرس کا پتہ لگانے کیلئے عالمی سطح کی ایک تجربہ کار ٹیم نے پاکستان کا دورہ کرکے تجزیاتی رپورٹ مرتب کی ہے اس کی سفارشات پر مکمل طور پر عملدرآمد کو یقینی بنایاجائے گا تاکہ نگرانی کے عمل کو مزید موثر بنایا جاسکے۔
تاہم ایک بات واضح ہے کہ آج ہمارے پاس وائرس کے خاتمے کا سنہری موقع ہے تاکہ ہمیشہ کیلئے وائرس کا خاتمہ کرکے اپنی آخری منزل کو حاصل کریں۔ پولیو سے پاک دنیا کے حصول کیلئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم بہترجانتے ہیں کہ ہمیں کیسے اور کیا کرنا ہے؟وائرس سے متاثرہ علاقوں قطروں سے رہ جانے والے بچوں کی تعداد میں کمی پر توجہ مرکوز ہے۔ حتیٰ کہ بچوں کی قوتِ مدافعت میں اس حد تک اضافہ کیا جائے کہ وائرس کو مکمل طور پر قابو کیا جاسکے۔ ویکسین کی مخالفت کرنے والے خاندانوں کو ویکسین کیلئے رضا مند کرنے کیلئے سب کو مل کر کوشش کرنی چاہئے۔افغانستان میں حالیہ گھر گھر پولیو مہم کا اعلان خوش آئند ہے جس سے پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا۔ ہر بچے کو پولیو کے قطرے پلانے سے پولیو کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔ہمیں سیکورٹی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ فرنٹ لائن ورکرز کا تحفظ ممکن ہو اور جہاں ہمارے بچے وائرس کے رسک پر ہیں اس کا خاتمہ کیا جاسکے۔
ہمیں قومی اور صوبائی سطح پر پرعزم رہنا چاہئے تاکہ ضلعی سطح پر وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے حکمت عملی کو یقینی بنایا جاسکے-ہمیں پاک افغان سرحد پر و یکسی نیشن کا عمل یقینی بنانا ہوگا تاکہ وہاں وائرس پر مکمل قابو پایا جاسکے۔ ہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا پولیو سے تھک چکی ہے، اسی طرح ہماری بھی اولین ترجیح ہے کہ اس موذی وائرس کا خاتمہ ہو تاکہ اپنے بچوں کو ہمیشہ کے لئےمحفوظ مستقبل فراہم کیا جا سکے تاہم اس کے لئے ہمیں پولیو سے پاک پاکستان اور پولیو کے بعد کی دنیا کے وژن کو اجاگر کرنا چاہئے۔
جون میں جی پی ای آئی کی کورونا کے بعد کی حکمت عملی 2022تا 2026ء کا عنوان تھا کہ ’’ہم کو خاتمے کا وعدہ کرنا ہے، ایسا وعدہ کہ دنیا ویکسین سے ختم ہونے والی بیماریوں کے خطرے سے آزاد ہوسکے‘‘۔ 4ماہ پہلے ہم اس وعدے کےپورا ہونے کے حوالے سے پُرامید تھے اور آج ہمیں محسوس ہورہا ہے کہ ہم نے ان الفاظ کا حق ادا کر دیا ہے۔ اس ذمہ داری نے ہمیں اپنی کامیابی کے بہت قریب کردیا ہے۔ بحیثیت وزیراعظم کے معاون برائے صحت اور ریجنل ڈائریکٹر عالمی ادارہ صحت ہم اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہم اس سنہری موقع کو ضائع نہیں ہونے دیں گے اور اپنی آخری منزل حاصل کرکے رہیں گے۔
(ڈاکٹر احمد المندھیری عالمی ادارۂ صحت کے ریجنل ڈائریکٹر اور ڈاکٹر فیصل سلطان وزیراعظم کے معاون برائے صحت ہیں)