ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے انتقال پر آج ایک اخباری بیان دیا ہے، امید ہے اس کا کچھ حصہ چھپے گا۔ میں ان پر ایک مضمون بھی لکھنا چاہتا ہوں۔ ابھی سیدھا ہاتھ ٹھیک طرح نہیں چل رہا۔
اول تو کراچی میں بارش ہوتی نہیں، ہوتی ہے تو چند جانوں کا خراج ضرور لیتی ہے۔ میں یہ سطریں آج بروز ہفتہ بتاریخ تین اگست بوقت دو بجے لکھ رہا ہوں۔ جہاں ٹی وی تھوڑی بہت بارش کی فوری خبر دیتا ہے وہیں موت بعد موت کی بری خبر بھی سناتا ہے۔ اس کے مطابق بجلی کا کرنٹ لگنے سے اب تک پانچ موتیں واقع ہوئی ہیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ یقیناً موت و حیات دو ناگزیر واقعات ہیں جن سے ہر انسان کو گزرنا ہوتا ہے۔ بات صرف یہ قابل غور ہے کہ کراچی جیسے با خبر معاشرے میں بجلی کا کرنٹ لگنے ہی کیوں دیا جائے۔ اچانک موت آئے اور اپنی آمد کے شکار کو ساتھ لے جائے۔ میں کئی بار ہفتوں بلکہ مہینوں لندن اور پیرس میں گزارے ہیں۔ وہاں ایک نہ ایک روزنامہ ہر صبح پڑھتا تھا۔ لندن میں تقریباً ہر وقت بارش ہوتی رہتی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے کبھی بجلی کا کرنٹ لگ جانے سے کسی موت کی کوئی خبر نہیں پڑھی۔
احتیاط ممکن یا نا ممکن
سوال یہ ہے کہ کیا کراچی میں بارش کے زمانے میں بجلی کا کرنٹ لگنے سے ہماری بے وقت موتوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ تاحال میرا محکم تجزیہ اور جواب یہی ہے کہ مدافعت کی جا سکتی ہے۔ یہ موت سانحہ ضرور ہے مگر تاہم اسے حادثاتی نہیں کہا جا سکتا۔ علاج احتیاط ہے۔ کیا ہم اور بے شمار خطروں کے حوالے سے ضروری احتیاطیں نہیں کرتے،بالکل کرتے ہیں پھر بجلی کے تاروں سے بچنا ایک لازمی قومی عادت کیوں نہ بنایا جائے۔ ایسا نہیں کہ لوگ بچنے کے طریقے نہیں جانتے۔ قطعاً جانتے ہیں مگر کچھ ایسے لاپروا ہوتے ہیں کہ اپنی پوری خوبصورت زندگی کو موت کے ہاتھ میں جانے سے نہیں روک سکتے۔
حکومتی ذرائع۔ پبلسٹی
وقت آ گیا ہے کہ حکومتیں، مقامی صوبائی اور مرکزی ایک اجتماعی کوشش کے ذریعے اس معاملے پر باہم آگاہی اور علم تنبیہات کے باقاعدہ اور باضابطہ پروگرام بنائیں اور ان پر عمل کرے۔ میں نے اس مسئلے پر پچھلے برسوں میں اور اب بھی کافی سوچا ہے۔ میں پوری سچائی کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ ایسا ممکن ہے اور اس کے نتائج یقیناً مثبت نکلیں گے۔ ذرا یاد کیجئے آج سے تیس چالیس برس پہلے تک ”دق“ کو ایک لا علاج مرض کہا جاتا تھا اور ہر سال سیکڑوں جانیں دق کی نذر ہو جاتی تھیں پھر حکومت نے اس سے تحفظ کی کوششوں کو اپنی ذمہ داری قرار دیدیا اور ہم نے دیکھا کہ ہمارے معاشرے کو آج کی نسبت زیادہ کم علم بھی تھا دق سے آزاد ہوجانے میں زیادہ سے زیادہ پانچ برس لگے۔ آج دق ایک لازمی مرض نہیں ہے اور کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں جبکہ ان میں سے بیشتر ایک عام پڑھنے والے کو بھی معلوم رہتی ہیں۔
اور میں نے یہ اندازہ بھی لگایا ہے کہ یہ حکومتی ذرائع پر کوئی بڑا بوجھ نہیں ہوگا۔ اور اس لئے تھوڑا بہت بوجھ ہوا بھی تو یہ ایک اچھا بوجھ ہوگا جو سیکڑوں ہزاروں جانوں کا محافظ ثابت ہوگا۔
کیوں کیا تینوں حکومتوں کے نامی اور اچھی تنخواہ پانے والے اور پڑھے لکھے افسروں میں حکومتیں چلانے والے سیاست دانوں میں اور وہ سب سرکاری اور غیر سرکاری حلقے جن کے اپنے اپنے مراکز فکر و تصورTHINK TANKS ہیں (اور جن میں سے بعض اچھا کام کررہے ہیں)۔
آئی ایم سوری اب ہاتھ کانپنے لگا ہے گھر پر کوئی معاون موجود نہیں جو یہ اظہاریہ اسے لکھوا دوں اور میرے لئے دعا کیجئے۔ کیا کروں آپ سے بات کرنے کی عادت پڑ گئی ہے ابھی تک تو یہ عادت ختم ہونے کے آثار نہیں۔