دنیا دیکھتے ہی دیکھتے ’’ڈیجیٹل وَرلڈ‘‘ میں تبدیل ہو چُکی ہے۔ ویسے توسوشل میڈیا کا بنیادی مقصد ہی مختصر وقت میں زیادہ سے زیادہ افراد تک خیالات اور نظریات کی رسائی تھی، جس سے لوگوں کی اکثریت نے بھر پور استفادہ بھی کیا ۔ اسی لیے سوشل میڈیا کی اہمیت میں روز بروز اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہےبلکہ اب تو یہ عالم ہے کہ کسی بھی واقعے کی خبر،ویڈیو یا تصویر منٹوں نہیں، سیکنڈوں میں لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہےاورمنفی یا مثبت دونوں ہی طرح اثرانداز ہونے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
سوشل میڈیا مختلف حصّوں میں تقسیم کیا گیاہے، جن میں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس سرِفہرست ہیں، جہاں لوگ اپنے پروفائل شیئر کرتے ہیں، ان میں فیس بُک، ٹوئیٹر،لنکڈاِن قابلِ ذکر ہیں۔اسی طرح مائیکرو بلاگنگ سائٹس میں انسٹاگرام،اسنیپ چیٹ، پِنٹ ریسٹ وغیرہ ، ویڈیو شیئرنگ سائٹس میں یوٹیوب ، فیس بک لائیو، آئی جی ٹی وی،اسکائپ،ٹِک ٹاک اوراسنیک خاصی مقبول ہیں۔
اسی کے ساتھ میسیجنگ ایپس بھی سوشل میڈیا کا اہم حصّہ ہیں، جن میں واٹس ایپ، وائبر، لائن، میسینج، وی چیٹ، ٹیلی گرام،سگنل وغیرہ شامل ہیں، جب کہ اب تو بہت سی گیمنگ ایپس بھی آگئی ہیں، جن میں کینڈی کرش، کلیش آف کلینز، کاؤنٹر اسٹرائیک، پب جی اور لوڈووغیرہ بھی شامل ہیں۔ دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد3.80ارب تک جاپہنچی ہے۔
مجموعی طور پر لوگ ابلاغِ عامّہ کے عام ذرایع اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے منتقل ہوکربڑی تیزی سے ایسے پلیٹ فارمز کی جانب متوجّہ ہو رہے ہیں، جہاں وہ اپنی پسند اور رحجانات کے مطابق مواد پڑھ، دیکھ اور سُن سکیں، اُن پر تبصرہ کر سکیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے نظریات کا کُھل کر اظہار کر سکیں۔
یعنی اب لوگ معلومات اور اطلاعات کے صارف اور پروڈیوسر دونوں ہی بن چُکے ہیں۔ آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ کے ولیم ڈٹن نے سوشل میڈیا کو ریاست کا پانچواں ستون قرار دیتے ہوئے کہاتھا کہ’’ہم ایسی طاقت وَر آوازوں اور نیٹ ورکس کو اُبھرتے دیکھ رہے ہیں ، جو روایتی میڈیا کے برعکس آزادانہ طور پر کام کرسکیں گے۔‘‘
اس وقت مُلک کی 87 فی صد آبادی کو ٹیلی کام سروسز میسّر ہیں، جب کہ 13 فی صد آبادی انٹرنیٹ اور ٹیلی کام سہولتوں سے محروم ہے۔ گزشتہ 5برسوں میں مجموعی براڈ بینڈ سبسکرپشن میں 175فی صد اضافہ، جب کہ مقامی سطح پر فور جی ڈیوائس مینوفیکچرنگ میں 34فی صد اضافہ ہواہے۔ 2020ء سے2021کے درمیان پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعدادمیں 24فی صد اضافہ دیکھاگیا۔واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں فیس بُک، ٹوئیٹر کے بعد ٹِک ٹاک کی مقبولیت عروج پر ہے،جب کہ یہ ایپ ڈائون لوڈ کرنے کے حوالے سے پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا مُلک ہے۔
پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کے مطابق پاکستان میں ماہانہ دو کروڑ افراد ٹِک ٹاک استعمال کرتے ہیں۔ٹِک ٹاک ایک چینی سوشل نیٹ ورکنگ ایپلی کیشن ہے ،جو صارفین کو ویڈیو کلپس، گانوں پر لپ سنگنگ اور چھوٹی ویڈیوز بنانے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ تاہم ،فیس بُک کے مقابلے میں پاکستان میں ٹِک ٹاک زیادہ متنازع رہا ہے ،کیوں کہ کم عرصے میں زیادہ شہرت حاصل کرنے کے خواہش مند لڑکے، لڑکیوں نے اس کےذریعےغیر اخلاقی حرکات کا مظاہرہ کیا اورجواباً سنجیدہ عوامی حلقوں کی جانب سے بار بار اسے بند کرنے پر زور دیا جا تارہا۔
مُلک کے کسی دُور دراز گائوں میں بھٹّے پر اینٹیں بنانے والا مزدور ہو یا قومی ائیر لائن میں کام کرنے والی فضائی میزبان یا پھر سیاست کے ایوانوں میں ہلچل مچا دینے والی کوئی سوشل میڈیا انفلوئینسر ، سب کی شہرت ہمارے قانون ساز اداروں تک پہنچی۔ تاہم ،یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نوجوانوں میں مقبول اس سوشل میڈیا ایپ نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں تہلکہ مچا رکھا ہے،حتیٰ کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران پنجاب کے گورنر ،چوہدری محمّد سرور نے بھی کووِڈ 19 سے متعلق شعور و آگہی مہم کے لیے پاکستان کے چند مشہور ٹِک ٹاک اسٹارز کو گورنر ہائوس میں مدعو کیا ، جس پرعوامی حلقوں کی جانب سے گورنر پنجاب کو ہدفِ تنقید بھی بنایا گیا۔
ٹِک ٹاک کے حامیوں کا کہنا ہے کہ’’ اس کی وجہ سے بے شمار عام افراد کو اپنا ہنر دکھانے کا موقع میسّر آیااور وہ راتوں رات سُپر اسٹارز بن گئے۔‘‘تاہم ،جیسے جیسے پاکستانی نوجوانوں میں اس ایپ کی مقبولیت بڑھی، اس سے وابستہ تنازعات نے بھی سر اُٹھایا اور بات تنبیہہ سے ہوتی ہوئی پابندی تک جا پہنچی۔ ماضی میں اس پر کئی بار پابندی لگی اور ختم ہوئی، مگر رواں سال 14اگست کومینارِ پاکستان پر ہونے والے واقعے نے حکومت سمیت مختلف حلقوں کو ٹِک ٹاک اور اس جیسی دوسری تمام اپیس کو بہت حد تک ریگولائز کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
نیز، اب فیس بُک اور یوٹیوب کو بھی سرکاری سطح پر ریگولیٹ کرنے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔خیال رہے، لاہور میں رواں سال جشنِ آزادی کے دن لوگوں کی بڑی تعداد گریٹر اقبال پارک میں جمع تھی،اس دوران ایک ٹِک ٹاکر عائشہ اکرم اپنے دو ساتھیوں عامر سہیل اور صدّام حسین کے ساتھ وہاں پہنچی اور ویڈیوز بنانا شروع کر دیں۔اچانک اوباش نوجوانوں کے ایک گروہ نے خاتون پر ہلّا بول دیا، اُس کےکپڑے پھاڑے اور ہوا میں اُچھالتے رہے۔
اس ہنگامہ آرائی کی ویڈیو جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، تو پولیس نے 400افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا، جس میں سرِعام خاتون کو برہنہ کرنے اور ہنگامہ آرائی کی دفعات شامل ہیں۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا بلکہ اس نے معاشرے کے مختلف حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی، جس میں سرِ فہرست پاکستان میں خواتین کے حقوق اور ان کے تحفّظ کی صورتِ حال اور ٹِک ٹاک جیسی اپیس کے معاشرے پرمنفی اثرات ہیں۔بہر حال، اس ضمن میںہم نے چند متعلقہ افراد سے بھی بات چیت کی، جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
معروف یوٹیوب اینکر، فرخ شہباز وڑائچ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’’سوشل میڈیا اس قدر تیزی سے دنیا کو متاثر کردے گا یہ کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا۔ میڈیا کی یہ قسم جہاں نعمت بن کر آئی ، وہیں یہ ہماری زندگیوں میں مشکلات بھی لارہی ہے کہ اب ہر کوئی ’’وائرل‘‘ہونے کا خواہش مند ہے، ہر دوسرا شخص کسی بھی قیمت پر راتوں رات مشہور ہونا چاہتا ہے۔ حالاں کہ ہمارے یہاںایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ سوشل میڈیا پر بہت معروف ہونے والے افراد اب کسی کو یاد تک نہیں۔
مثلاً برطانیہ میں’’ون پاؤنڈ فِش‘‘ گاکر مچھلی بیچنے والا پاکستانی جب مشہور ہوا تو کئی کمپنیز نے اسے اشتہارات میں لیا ،اس نے باقاعدہ گانا بھی شروع کیا ،مگر بعدازاںکام یاب نہ ہوسکا۔وہ رنگین آنکھوں والا ’’ارشد چائے والا‘‘کیسے معروف ماڈلز کے ساتھ ریمپ تک جا پہنچا، مگر اب پھر سُنا ہے کہ اپنا چائے کا ڈھابا ہی چلا رہا ہے۔ اسی طرح شاہدرہ کی دو بچیاں ، جسٹن بیبر کے گانے گاکر مشہور توہوئیں، مگر گلوکاری میں نام نہ بنا سکیں۔ اسی طرح بہت سے لوگ وائرل ہوتے ہیں ، مگر چند ہفتوں بعد پھرانہیں کوئی یاد بھی نہیں رکھتا۔
حال یہ ہے کہ اب لوگ کوئی نیکی کرنےسے قبل بھی اس کا چرچا سوشل میڈیا پر کرنالازم سمجھتے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’مینارِ پاکستان واقعے نے پوری سوسائٹی کو ہلا کر رکھ دیا تھا، مجھے متاثرہ لڑکی اور اس کے ساتھی سے کئی بار ملنے کا موقع ملا۔اس واقعے کے بعد اس لڑکی نے کچھ یوٹیوبرز کی موجودگی میں کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ مجھے گھر لے کر دے تاکہ میں بحفاظت رہ سکوں۔
اسی طرح اس کے ساتھی نے کہا کہ مَیں کئی مرتبہ اس لڑکی کو منع کرتا رہا، مگر اس نے میری ایک نہ مانی۔ اس سے پہلے ریمبو نامی یہی لڑکا اپنے موت سے متعلق بھی ٹِک ٹاک ویڈیو زبناچُکا ہے، جس کا مقصد محض شہرت ہی کا حصول تھا۔اور اب انکشاف ہوا کہ لاہور واقعہ در اصل لڑکی اور اس کے ساتھی ہی کی ملی بھگت تھی، تو سوشل میڈیا کہیں نہ کہیں جھوٹی معلومات کا بھی سیلاب لارہا ہے۔ ایک یوٹیوب اینکر ہونے کے باوجود مَیں سمجھتا ہوں کہ اس پرچیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے۔ جہاں اس کی وجہ سے لوگوں کی زندگیوں میں خوشیاں آرہی ہیں، وہیں یہ کئی زندگیاں برباد کرنے کا بھی سبب بن چُکا ہے۔‘‘
اسی حوالے سے یوٹیوبراور لکھاری ،سیّدہ ملیحہ ہاشمی نے کہاکہ’’ ہم چوں کہ بنیادی طورپر شغل میلہ انجوائے کرنے والے ،غیر سنجیدہ رویّوں کے حامل افراد ہیں، اسی لیے سوشل نیٹ وَرکنگ نے ہمیں آکٹوپس کی طرح جکڑ لیاہے۔ یہ سائٹس شہرت کے حصول کا اہم پلیٹ فارم سمجھی جاتی ہیں، مگر ان کی وجہ سےنہ صرف کئی نوجوانوں کی زندگیاں گہنا گئیں، بلکہ منفرد سیلفیز کا شوق انہیں موت کے دہانے تک لے گیا۔ دَر حقیقت ،ٹیکنالوجی کے منفی اثرات ، مثبت اثرات کے مقابلے میں زیادہ شدّت سے فروغ پاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کا منفی استعمال شروع دن ہی سے غالب ہے۔ فیس بُک سمیت بیش تر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پرنازیبا زبان استعمال کرنے اور اسی نوعیت کی تصاویر اور ویڈیوز اَپ لوڈ کرنے کی مکمل آزادی ہے،اور اسی رجحان کے باعث نہ صرف سوشل میڈیابلکہ عملی زندگی میں بھی مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان کدورتیں اور دوریاں بڑھ گئی ہیں،جس کی روک تھام اشد ضروری ہے۔ ‘‘
پاکستانی معاشرہ شعوروآگہی کے حوالے سے ابھی زیرِ تعمیر ہے، اس لیے ہمارے ہاں سوشل میڈیا کے مثبت اثرات کم، منفی زیادہ مرتّب ہو رہے ہیںاور یہی وجہ ہے کہ جب کوئی ایسا واقعہ سامنے آتا ہے، جس میں مرد و عورت کی تخصیص کا عُنصرشامل ہو، تو معاشرہ غیر محسوس طور پر دو انتہائوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔
مینارِ پاکستان واقعے میں بھی یہی ہوا۔ ہمارا معاشرہ ہر سطح پر تقسیم ہو گیا، خواتین کے حقوق، ان کے تحفّظ پر بحث نے جنم لیا، توسماجی ابتری، والدین کی تربیت اور تعلیمی اداروں کا کردار بھی موضوعِ بحث بنا۔ہم نے موضوع کی مناسبت سے سوشل میڈیا اُمور کےماہر اور موجودہ حکومت کے سوشل میڈیا سیل اِن چارج ، ڈاکٹر محمّد کامران سے بات چیت کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’’میرے خیال میں توسوشل میڈیا کے استعمال کے دوپہلو ہیں۔ اوّل سوشل میڈیا کا کردار اور اثرات ، دوم، کسی بھی معاشرے میں اسے استعمال کرنے والوں کی ذمّےداریاں۔
عمومی طور پر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پرانفرادی رائے کا اظہار کیا جاتا ہے اور مختلف لوگوں سے تبادلۂ خیال کر کے حالاتِ حاضرہ پر رائے قائم کی جاتی ہے، جب کہ کچھ صارفین ،گروپ کی شکل میں کام کرتے ہیں اور کچھ لوگ انفلیوئنسرزکی صُورت اپناکردار ادا کرتے ہیں اور یہ دونوں بعض اوقات کسی مخصوص ایجنڈے پرغیر محسوس انداز میں کام کر رہے ہوتے ہیں اور بعض دفعہ اپنا ذاتی بیانیہ بھی پیش کرتے ہیں۔چوں کہ ان کی فین فالوِنگ اور زیادہ لوگوں تک رسائی ہو تی ہے، اسی لیے ان کا بیانیہ دُور تک پھیلتا چلا جاتاہے، پھر فالورز بھی ایجنڈا پھیلانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح جب دیگر گروپس کی جانب سے اختلافی بیانیہ سامنے آتا ہے ،تو مخالفت میں دلائل دیتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ، پھر ایک دوسرے پر کیچڑبھی اچھالا جاتا ہے، حتیٰ کہ دونوں گروپس اپنے اپنے حق میں دلائل دیتے ہوئے ذاتیات پر اتر آتے ہیں اور بات لڑائی جھگڑے،طعن و تشنیع اور بعض اوقات گالم گلوچ تک جاپہنچتی ہے۔
سوشل میڈیا کی خوبی کہہ لیں یا خامی کہ اس کے ذریعے ہر خبر بلاتصدیق منٹوں، سیکنڈوں میں پھیل جاتی ہے۔ مینار ِپاکستان واقعہ اس کی ایک بڑی مثال ہے، ویڈیو شیئر ہونے کے بعد کسی نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ اس کے وائرل ہونے سے سوسائٹی اور متعلقہ خاتون کو فائدہ ہو گا یا نقصان۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس کے پاس ویڈیو تھی، وہ متعلقہ اداروں کو رپورٹ کرتا تاکہ کارروائی عمل میں لائی جا تی ۔مگر بد قسمتی سے پاکستان میں سوشل میڈیا انتہائی غیر ذمّے داری سے استعمال ہوتا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’ فیس بک ،ٹوئٹر، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور اسنیپ چیٹ جیسی سائٹس نے مردوخواتین، نوجوانوں اور بوڑھوں کے ساتھ بچّوں کو بھی اپنا گرویدہ کر لیاہے ،مگر ہم لوگوں کو عوام میں شعور و آگہی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔یہ حکومت کے لیے بھی ایک چیلنج ہی ہے کہ معاشرے میں منفی پراپیگنڈے کی روک تھام یقینی بنائے۔ اسی طرح عوام کو بھی سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے ذمّے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ریٹنگ کے چکّر میں ایسا کوئی بھی مواد شیئر نہ کریں، جس سے مُلک کی سالمیت پر آنچ آئے۔ بد قسمتی سے اتنے برسوں میں کسی بھی حکومت کی طرف سے ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی پالیسی بنائی ہی نہیں گئی۔ پہلی مرتبہ موجودہ حکومت نے ڈیجیٹل پالیسی بنائی ہے، جو کا بینہ سے منظور بھی ہو چُکی ہے، تو اب اُمید ہے کہ سوشل میڈیا پر معاشرے اور مُلک کے لیے نقصان دہ چیزوں کی روک تھام کا بندوبست کیا جاسکے گا۔‘‘