ایک حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ دوسروں کی مدد کرنے سے ڈیمنشیا (نسیان، دماغی کمزور اور بھولنے کی بیماری) سے بچاؤ میں معاون ہوسکتی ہے۔ تحقیق کے مطابق ایثار اور بے لوث رویّہ دماغی بڑھاپے کی رفتار کو 20 فیصد تک سست کر دیتا ہے۔
سائنس دانوں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ دوسروں کی مدد کے لیے ہفتے میں صرف چند گھنٹے نکالنا یادداشت میں کمی کو سست کر سکتا ہے اور ڈیمنشیا سے بچاؤ میں مدد مل سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ مہربانی کے سادہ سے طریقے چاہے وہ باقاعدہ رضاکارانہ خدمات ہوں یا دوستوں اور پڑوسیوں کی مدد کی جائے اس سے ذہنی سکون ملتا ہے جو کہ دماغی صلاحیتوں میں کمی کو تقریباً 20 فیصد تک سلو کر سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف ٹیکساس آسٹن کے سائنسدانوں نے اس حوالے سے اپنی تحقیق کے دوران 51 برس یا اس سے زیادہ عمر کے 30 ہزار سے زیادہ امریکی شہریوں کو 20 برس تک اپنے زیر مطالعہ رکھا۔ اس دوران وہ ان سے ٹیلی فون کرکے بات چیت کرتے اور ان کی یاداشت اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو چانچتے رہے۔
سائنسدانوں نے تحقیق میں شریک ان رضاکاروں کے تین قسم کے ٹیسٹ مکمل کیے جن کے ذریعے فوری یادداشت، ورکنگ میموری اور ذہنی عمل کی رفتار کو جانچا گیا۔ ان میں زیادہ مجموعی اسکور بہتر دماغی صحت کی نشاندہی کرتا تھا۔
اس کے بعد سائنسدانوں نے دو اور طریقے اپلائی کیے۔ جن میں ایک باضابطہ رضاکارانہ خدمت، جیسے خیراتی یا کمیونٹی ورک اور غیر رسمی مدد جیسے کہ دوستوں، پڑوسیوں یا ان رشتہ داروں کی بلا معاوضہ مدد کرنا جن کے ساتھ وہ نہیں رہتے تھے۔
اس سے جو نتائج سامنے آئے ان کے مطابق جو لوگ کسی بھی طریقے سے دوسروں کی مدد کرتے تھے ان میں ذہنی صلاحیتوں میں کمی کی رفتار ان لوگوں کے مقابلے میں 15 سے 20 فیصد سست پائی گئی جو مدد نہیں کرتے تھے۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ ان افراد میں دیکھا گیا جو ہفتے میں صرف دو سے چار گھنٹے مدد فراہم کرتے تھے۔
اس تحقیقی ٹیم کے سربراہ اور یونیورسٹی آف ٹیکساس آسٹن کے شعبہ ہیومین ڈیولپمنٹ اینڈ فیملی سائنسسز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سائے ہوانگ ہان کے مطابق لوگوں کی روز مرہ معاملات میں مدد منظم انداز میں یا ذاتی طور پر ہمیشہ دیرپا اور مفید اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔