پاکستان فلم انڈسٹری کی نامور فن کارہ روزینہ اپنے دور کی ایک گلیمرل گرل کے طور پر تسلیم کی جاتی تھیں۔ روزینہ نے جس وقت اپنے کیریئر کاآغاز کیا، وہ پاکستان کی فلمی صنعت کا بھرپور دور تھا۔ یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیںکہ روزینہ نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کراچی میں بننے والی فلم ’’ہمیں بھی جینے دو‘‘ سے کیا تھا، یہ فلم 1963ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم سے اداکار حنیف مرحوم نے بھی اپنے کیریئر کاآغاز کیا تھا۔ یہ فلم کراچی کے سابق سنیما اوڈین میں ریلیز ہوئی تھی، اس میں مہدی حسن کی ایک غزل ’’الٰہی آنسو بھری زندگی کسی کو نہ دے‘‘ بے حد مقبول ہوئی تھی۔
روزینہ نے اس فلم میں بہ طور معاون ادکارہ کے طور پر کام کیاتھا، وہ بہ طور سولو ہیروئن پہلی مرتبہ فلم ’’چوری چُھپے‘‘ میں جلوہ گر ہوئی تھیں۔ اس فلم کے ہدایت کار جمیل مرزا تھے اداکار سیٹھی نے اس فلم میں روزینہ کے ہیروکا رول کیاتھا۔ یہ کراچی کے پلازہ سنیما میں ریلیز ہوئی تھی، جو کہ اب مسمار ہوچکا ہے۔ روزینہ کی آخری ریلیز فلم مشرق و مغرب تھی، جو 1985ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ روزینہ نے اپنے 22؍ سالہ فلمی کیریئر میں کل 90؍ ریلیز شدہ فلموں میں کام کیا۔ ان کی اردو فلموں کی تعداد 58؍ جب کہ پنجابی کی تعداد 31؍ ہے اور صرف ایک فلم پشتو کی شامل ہے۔
روزینہ 21؍ ستمبر 1950ء میں کراچی میں پیدا ہوئیں۔ اُن کا پیدائشی نام آئی وی سنتھیا تھا۔ وہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی تھیں۔ کراچی کے سینئر صحافی بوکھلانی نے روزینہ کا فلمی نام دیا تھا، معروف سائونڈ ریکارڈسٹ رفعت قریشی سے شادی کے بعد روزینہ عائشہ قریشی کہلائی جانے لگیں۔ روزینہ کی بڑی بہن راحیلہ اپنے دور کی ایک بہترین ڈانسر تھیں۔ کراچی کی چند فلموں میں راحیلہ نے نہ صرف اداکاری کی، بلکہ وہ ڈانس ڈائریکٹر کے طور پر بھی اپنے آپ کو منواچکی تھیں۔
روزینہ نے کراچی نے سینٹ جوزف اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد اسی کالج سے انٹر کیا۔انہیں انگریزی زبان بولنے اور سمجھنے میں عبور حاصل تھا، انگریزی ان کی مادری زبان تھی۔ راحیلہ نے کراچی کے اسٹیج پر اپنا بڑا نام کیا۔ روزینہ نے رقص کی تعلیم و تربیت اپنی بہن راحیلہ سے حاصل کی۔ رقص کے ساتھ ساتھ روزینہ کو گانے کا بے حد شوق تھا۔ اس کی آواز میں ردہم اور مٹھاس کاایک اچھا خاصہ عنصر پایا جاتا تھا، مگر تقدیر نے روزینہ کو اداکارہ بنادیا۔ فلمی زندگی کے آغاز کے ساتھ ساتھ روزینہ کو اس زمانے میں بہت سی کمپنی نے اپنے برانڈ کی اشتہاری مہم میں بہ طور ماڈل کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے فلموں کے ساتھ ماڈلنگ کے شعبے میں بھی بے حد مقبولیت حاصل کی۔
1966ء میں فلم ساز و اداکار وحید مراد کی یادگار رومانی و نغماتی فلم ارمان روزینہ کے کیریئر کی پہلی اہم اور سب سے کام یاب فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم میں روزینہ نے اداکارہ زیبا اور ترنم کی چھوٹی بہن کا کردار ادا کیا تھا ، اپنے دور کی معروف اداکارہ ببو بیگم مرحومہ نے روزینہ کی ماں کا رول کیا تھا۔
اس مختصر سائیڈ کردار میں روزینہ فلم کے جس منظر میں بھی نظر آئیں، وہ منظر بے حد دل کش اور یادگار ہوگیا، خاص طور پراداکار نرالا جوروزینہ کو پسند کرتے ہیں اور ایک گانا جو وحید مراد پر فلمایا گیا ’’بے تاب ہیں ادھر ہم ‘‘وحید مراد کے ساتھ نرالا اس گانے میں اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے ہوئے روزینہ سے اپنے عشق کا اظہار کرتے ہیں اور روزینہ صرف مسکراتی اور ہنستی رہتی ہے، اس منظر میں وہ بے حد حسین اور دل کش معلوم ہوتی ہیں۔ ارمان کو پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ یادگار فلم 18؍ مارچ 1966ء میں کراچی کے سابق ناز سنیما میں ریلیز ہوئی تھی۔
ارمان کے بعد اسی سال روزینہ پاکستان کی پہلی ملٹی اسٹار فلم ’’جوش‘‘ میں وحید مراد کے مقابل ہیروئن کاسٹ ہوئی، اس فلم میں چھ ہیروئنز اور چھ ہیرو پہلی بار ایک ساتھ آئے تھے۔ یہ ایک بے حد خُوب صورت ایکشن فلم تھی، اس فلم میں بیوٹی کوئن زیبا نے سدھیر کے مقابل ہیروئن کا رول کیاتھا۔ یہ یادگار گولڈن جوبلی ایکشن فلم 2؍ اپریل 1966ء میں کراچی کے سابق جوبلی سنیما میں ریلیز ہوئی، اسی سال ریلیز ہونے والی ہدایت کار اے ایچ صدیقی کی فلم ’’اکیلے نہ جانا‘‘ میں محمد علی کی بہن کا کردار کیاتھا۔ سدابہار نغمہ ’’اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر ‘‘ موسیقار سہیل رعنا نے اس فلم کے لیے کمپوز کیا تھا، بعد میں فلم ساز ستار شیخانی سے کسی بات پر ناراضگی کے بعد سہیل رعنا نے یہ نغمہ فلم ارمان میں شامل کردیا۔
فلم اکیلے نہ جانا کے لیے بعد میں موسیقار لال محمد اقبال کو منتخب کیا گیا۔ 1967ء ریلیز ہونے والی کمال اور دیباکی فلم میرے بچے میری آنکھیں میں روزینہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردارکیا تھا۔ اسی سال ریلیز ہونے والی ہدایت کار پرویز ملک کی فلم احسان میں روزینہ نے سائیڈ ہیروئن کے طور پر مزاحیہ اداکار نرالا کے مقابل کام کیا۔
احسان اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک تیری یاد گار فلم تھی۔ اداکار نرالا کے مقابل روزینہ کی بہ طور ہیروئن فلم استادوں کا استاد بھی اسی سال ریلیز ہو کر ناکام رہی۔ اس فلم میں اداکار فاضلانی نے ٹائٹل رول کیا تھا، 1968ء میں ریلیز ہونے والی کام یاب فلم سنگدل میں روزینہ نے دیبا کے مقابل سائیڈ کردار کیا اور اس میں وہ اپنی کردار نگاری کے نمنٹ نقوش چھوڑ گئیں۔
آج بھی یہ فلم روزینہ کی بہترین کردار نگاری کی بنا پر لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہے۔ فلم ساز وحید مراد کی یادگار کام یاب فلم سمندر روزینہ کی ایک ایسی ہی فلم تھی، جس میں وہ سائیڈ ہیروئن کے طور پر آئیں اور اپنے کردار میں عمدہ اداکاری سے فلم بینوں میں مقبول ہوئیں۔ 1969ء میں ریلیز ہونے والی وحید مراد کی بطور فلم ساز ہدایت کار کہانی نویس اور گلوکار یادگار فلم ’’اشارہ‘‘ میں روزینہ کی کردار نگاری بے حد قابل داد اور ناقابل فراموش تھی۔ اس فلم میں روزینہ کو پہلی بار ایک بہترین اداکارہ تسلیم کیا گیا۔ روزینہ کو اعلی کردار نگاری پر خصوصی نگار ایوارڈ دیا گیا۔ اسی سال ریلیز ہونے والی ہدایت کار رضا میر کی آسرا اور انیلا میں روزینہ نے سائیڈ کرداروں میں بے حد لاجواب اداکاری کی۔
1969ء میں ہدایت کار شباب کیرانوی کی پہلی کلر فلم ’’تم ہی ہو محبوب میرے‘‘ میں روزینہ وحید مراد اور دیبا ایک بار پھر فلم اشارہ کے بعد ایک ساتھ آئے، اس مرتبہ بھی روزینہ کا کردار سب پر بازی لے گیا۔ اس سال روزینہ کی بہ طور سولو ہیروئن دو فلمیں اسلام و علیکم اور پیار کی جیت ریلیز ہوئیں۔ یہ دونوں فلمیں بڑی طرح ناکام رہیں۔ اسلام و علیکم میں وہ نئے اداکار فیروز کے مقابل ہیروئن آئیں، جب کہ پیار کی جیت وہ اپنے دیور عابد قریشی کے مقابل ہیروئن آئیں۔ روزینہ کی ایک ہی بیٹی ہے، جو صائمہ قریشی کے نام سے ٹی وی ڈراموں کی معروف اداکارہ تصور کی جاتی ہیں۔
1969ء کا ذکر ہورہا تھا، اس سال ہدایت کار ہمایوں مرزا کی کام یابی گھریلو نغماتی معاشرتی فلم سزا میں روزینہ نے نئے اداکار جمیل کے مقابل ہیروئن کا رول کیا، یہ فلم شاندار کام یابی سے ہم کنار ہوئی۔ اس فلم کے پروڈیوسر معروف فلمی صحافی علی سفیان آفاقی تھے، فلم کی کہانی بھی انہوں نے ہی تحریر کی تھی۔ سزا میں نیئر سلطانہ اور درپن نے اپنی زندگی کے ناقابل فراموش رول کیے تھے۔
مہدی حسن کی آواز میں گایا ہوا یہ گیت اس فلم کی ہائی لائٹ تھا، جس کے بول تھے ، ’’جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنالیتے ہیں لوگ‘‘ 1970ء میں روزینہ نے فلم ساز و اداکار سید کمال کی ہدایت میں بننے ولای یادگار نغماتی فلم ’’ہنی مون‘‘ میں ایک جنگلی لڑکی کا یادگار کردار کیا تھا۔ ہنی مون کی شوٹنگ کے لیے کمال صاحب یورپ میں گئے تھے۔ اس فلم میں اداکارہ حسنہ نے کمال کے مقابل ہیروئن کا کردار کیا تھا۔
ہنی مون کا کچھ حصہ سابق مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش)کے گھنے اور حسین جنگلوں میں شوٹ ہوا تھا۔ روزینہ کا کردار اس حصے سے تعلق رکھتا تھا ۔ اس سال ریلیز ہونے و الی ہدایت کار لقمان کی فلم افسانہ میں پہلی بار روزینہ ویمپ کے کردار میں نظر آئیں۔ فلم ’’لو ان یورپ‘‘ میں کمال کے مقابل ہیروئن آئیں اور یہ فلم ناکام رہی۔ ہدایت کار پرویز ملک کی نغماتی و رومانی فلم سوغات اسی سال ریلیز ہوئی، اس فلم میں پہلی بار ایک نیا تجربہ کیا گیا۔
ایک فلم میں دو کہانیوں کو شامل کیا گیا۔ فلم شروع وحید مراد اور روزینہ کی کہانی سے ہوتی ہے، جب کہ انٹرویل کے بعد ندیم اور شبانہ کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ عوام اس نئے تجربے کو سمجھ نہ سکی اور فلم ناکام رہی۔ اس سال روزینہ نے اردو فلموں کے ساتھ ساتھ پنجابی فلموں میں بھی کام کرنا شروع کردیا۔ روزینہ کی پہلی پنجابی فلم پردیسی اس سال ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں اداکار اعجاز نے ڈبل رول کیا تھا۔ روزینہ اور عالیہ اس فلم کی ہیروئنز تھیں۔ 1971ء میں روزینہ اور وحیدمراد فلم رم جھم میں جلوہ گر ہوئے، اس فلم میں روزینہ کی کردار نگاری بڑی لاجواب تھی۔
اس فلم میں انہوں نے اندھی لڑکی کے کردار میں چونکا دینے والی اداکاری کی تھی۔ ملکہ ترنم نور جہاں کا کلاسیک سونگ ’’میں نے اک آشیاں بنایا تھا‘‘ روزینہ پر فلمایا گیا تھا۔ ریاض شاہد مرحوم کی یادگار تاریخی فلم ’’غرناطہ‘‘ اسی سال ریلیز ہوئی۔ غرناطہ میں روزینہ کے مقابل جمیل نے ہیرو کا رول کیا تھا۔ اس فلم میں روزینہ بے حد دلکش لگیں۔ ہدایت کار جمیل اختر کی جاپان میں شوٹ کی گئی فلم ’’خاموش نگاہیں‘‘ وحیدمراد کے ساتھ روزینہ کی یادگار فلم تھی۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے اشتراک سے بننے والی یادگار فلم ’’جلتے سورج کے نیچے‘‘ میں روزینہ نے ندیم کے مقابل ہیروئن کا رول کیا، اس فلم میں ندیم نے تین کردار کیے تھے۔
روزینہ، ببیتا اور صاعقہ ندیم کی ہیروئنز تھیں۔ ہدایت کار اسلم ڈار نے ضیاء محی الدین کو ہیرو لے کر فلم ’’مجرم کون‘‘ بنائی، اس فلم میں روزینہ کو ہیروئن کاسٹ کیا، یہ ایک جاسوسی فلم تھی۔ فلم بے حد اعلی تھی، مگر ضیاء محی الدین ہیرو کے طور پر بالکل نہ جچے اور اس فلم کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ بنے۔ 1972ء خلیفہ سعید نے انڈین فلم دو بھائی کی بالکل ہو بہو کاپی ’’دولت اور دنیا‘‘ کے نام سے بنائی، یہ فلم بے حد کام یاب رہی اس فلم کے نغمات نے جو مقبولیت حاصل کی آج بھی قائم ہے، وحید مراد نے اس فلم میں ڈبل رول میں نہایت اعلی کردار نگاری کا مظاہرہ کیا۔
1972ء میں جمیل اختر کی جاپانی گڈی ریلیز ہوئی جاپاین گڈی کا یادگارکردار روزینہ کے کیریئرکا ایک یادگار کردار بن گیا۔ دلجیت مرزا کی فلم ’’ٹھاہ‘‘ میں روزینہ نے سدھیر کے مقابل ہیروئن کا رول کیا، یہ فلم بےحد کام یاب رہی، اسی سال ہدایت کار اسلم ڈارکی شہرہ آفاق فلم بشیرا ریلیز ہوئی، جس نے سلطان راہی کو سپراسٹار بنادیا تھا، اس فلم میں روزینہ اداکار حبیب کے مقابل ہیروئن آئیں۔ فلم بشیرا میں روزینہ کا ایک ڈائیلاگ بےحد مشہور ہوا تھا ۔
اس فلم میں روزینہ بات بات پر کہتی ہے ’او میں ٹوٹے کردیواں گی‘‘ یہ مکالمہ آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ بابل ڈاکو بہ طور ہیروئن روزینہ کی آخری فلم تھی، جو 1976ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اقبال حسن اس فلم کے ہیرو تھے۔ 1976ء سے 1988ء تک روزینہ نے جن فلموں میں کام کیا ان تمام فلموں میں اس کے کردار ثانوی تھے۔ 1988ء میں روزینہ کی آخری فلم بدگمان ریلیز ہوئی جو کہ پشتو زبان میں تھی۔اپنے دور کی یہ مقبول اداکارہ آج بھی اپنے چند فلمی کرداروں کی وجہ سے لوگوں کو یاد ہیں۔