• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اِس وقت تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف حکومت کی بدانتظامی عروج پر ہے تو دوسری طرف مہنگائی نے عوام کو نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔ بےلگام ہونیوالی مہنگائی کی وفاقی ادارۂ شماریات بھی تصدیق کر رہا ہے ۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے دوران ملک میں مہنگائی مزید 1.38فیصد بڑھی ہے اور 29مختلف اشیا مہنگی ہوئی ہیں۔ گزشتہ ہفتے سب سے کم آمدن والے طبقہ کیلئے مہنگائی کی شرح 15.72فیصد پر پہنچ گئی اور ایل پی جی و پٹرولیم مصنوعات کے علاوہ گھی، چینی، آلو، انڈے، دودھ اور دہی کے نرخ بھی بڑھے ہیں۔

یہ طرفہ تماشا ہے کہ عوام کو درپیش غربت اور مہنگائی کے ان گھمبیر مسائل پر حکمران طبقات انہیں طفل تسلی دیتے بھی نظر نہیں آتے اور ملک سے باہر بیٹھ کر وفاقی مشیر خزانہ شوکت ترین عوام پر مہنگائی مزید بڑھنے کا تازیانہ برسا رہے ہیں اور گورنر اسٹیٹ بینک پٹرولیم نرخوں کا دوسرے ممالک کے نرخوں سے موازنہ کرتے ہوئے مہنگائی کے مارے عوام کے زخموں پر یہ کہہ کر نمک پاشی کر رہے ہیں کہ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ اب بھی بہت کم ہیں۔ اس طرح انہوں نے نرخ مزید بڑھانے کا عندیہ بھی دے دیا ہے جبکہ عوام یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ گورنر اسٹیٹ بینک کو جن ممالک میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ زیادہ نظر آتے ہیں انہیں وہاں کے عوام کی پُرکشش تنخواہیں اور حکومتوں کی جانب سے ملنے والی دوسری مراعات کیوں نظر نہیں آتیں؟ گورنر اسٹیٹ بینک کا انگلینڈ میں دیا گیا بیان پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے۔ انہوں نے غیرملکی کرنسی بینکوں میں رکھنے پر جس شرح منافع کا اعلان کیا ہے وہ حیرت انگیز حد تک حیران کن ہے۔ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں اس شرح منافع کی مثال نہیں ملتی۔ وہ پاکستانی معیشت کو مصنوعی تنفس کے ذریعے چلانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں جس کا نتیجہ غریب عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کے غریب و پسماندہ عوام آج سب سے زیادہ مہنگائی سے متاثر ہیں جس میں روز افزوں اضافہ کے باعث ان کیلئے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ وہ مہنگائی کے سونامیوں کی بھی زد میں ہیں اور بےروزگاری کا عفریت بھی ان کی غربت اور مہنگائی کے مسائل میں اضافہ کر رہا ہے۔ چنانچہ وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق سڑکوں پر جلسے جلوسوں اور احتجاجی مظاہروں کے ذریعے اپنے گھمبیر مسائل کے حل کیلئے آواز اٹھانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ اور دیگر حکومتی ذمہ داران اپنے بیانات میں حکومت کو اطمینان دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مہنگائی کے خلاف جلد کریک ڈاؤن ہو گا۔ انہوں نے عوام کو یہ بھی یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ چینی، دالوں اور آٹے پر ایک بڑا ریلیف لانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے لیکن سابق تجربات کی روشنی میں حکومت کے ان وعدوں پر اعتبار کرنا مشکل نظر آتا ہے۔


حکومت کی تین سالہ کارکردگی اس کے موقف کی کمزوری کی طرف واضح اشارہ کرتی ہے۔ حکومت نے اپنی آمدن بڑھانے کے لئے بجلی گیس اور پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں بیرونی وجوہات کے بغیر بھی مسلسل اضافہ کیا ہے۔ حکومت کی بیڈ گورننس کے نتیجے میں دواؤں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جب کہ گندم اور چینی جیسی بنیادی اشیائے ضروریہ یا تو ناپید ہیں یا مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہیں۔ ایل این جی کے سودے مناسب وقت گزرنے کے بعد کیے جا رہے ہیں اور روپے کی قدر روز بروز کم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان حالات میں مہنگائی کو بنیاد بنا کر حکومت کے خلاف اپوزیشن بڑی تحریک کا آغاز کر سکتی تھی لیکن احتساب کے شکنجے میں جکڑی اپوزیشن نے مؤثر آواز بلند کرنے کے بجائے محض خانہ پری سے کام لیتے ہوئے محدود پیمانے پر احتجاج کا اعلان کیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اپوزیشن جماعتیں عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتیں، عوام کے حقیقی مسائل کا ادراک کرتیں، عوام کی آواز بنتیں اور عوامی کاز کو لے کر قوم کو کال دیتیں لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ پی ڈی ایم ایک مرتبہ پھر ایک مردہ اتحاد بنتا نظر آرہا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن گزشتہ کئی ماہ سے چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے احتجاجی مظاہروں کا بھی وہ رنگ نہیں بنا جس کی توقع کی جارہی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے محض خانہ پری کے لئے یہ احتجاج ریکارڈ کرایا جارہا ہو۔ ان جلسوں میں مہنگائی سے متعلق کم اور اپنے قائدین کے خلاف بننے والے مقدمات کے حوالے سے نعرے بازی زیادہ تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی کارکردگی تو اور بھی بری رہی اور ملک بھر میں کسی جگہ پر بھی کوئی متاثرکن اجتماع دیکھنے میں نہیں آیا۔ حکومت نے فوج میں اعلیٰ سطح پر ہونے والی تقرریوں کے سلسلے میں جو تماشہ لگایا وہی اس کی اہلیت کا پول کھولنے کے لئے کافی تھا لیکن حکومت کی اس بد انتظامی پر نہ تو لندن سے کوئی بیان آیا اور نہ ہی پاکستان میں موجود قیادت نے اس مسئلہ کو اہم مسئلہ جانا۔ پاکستان کے عوام بھی موجودہ اپوزیشن پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آرہے۔ موجودہ سرتوڑ مہنگائی کے بعد اگر عوام کو اپنی اپوزیشن جماعتوں پر اعتماد ہوتا تو ان کی آواز پر ضرور لبیک کہتے۔ عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ کون سا اپوزیشن لیڈر سخت بیانات داغنے کے بعد بیک ڈور ڈپلومیسی میں مصروف ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا وقت کبھی نہیں آیا جب عوام حکومت اور اپوزیشن دونوں سے مایوس ہوں۔ اگر اپوزیشن حقیقی اپوزیشن کرتی، پارلیمان میں اپنا مؤثر کردار ادا کرتی، اپنے کارکنان کو درست انداز میں متحرک کرتی تو حکومت کو اس بےہنگم انداز میں معاملات کرنے کی جرأت ہرگز نہ ہوتی۔ اس وقت حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن بھی ان حالات کی مکمل ذمہ دار ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، پی ڈی ایم سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کو عوام کی مؤثر آواز بننا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس مایوسی کے عالم میں عوام کا اس نظام سے ہی اعتماد اٹھ جائے۔

تازہ ترین