• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان ماضی میں بہت سے ناممکن کام کرچکے ہیں۔ انہوں نے ایک عام سے باؤلر کی حیثیت سے آغاز کیا اور جنہوں نے میری طرح انہیں ایچی سن میں اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلتے دیکھا، ان کا یہ خیال تھا کہ وہ کبھی اچھے بولر نہیں بن سکیں گے۔وہ ایک عظیم فاسٹ بولر اور کرکٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ اگر کسی نے اس پہلے ٹیسٹ کے وقت ایسا کہا ہوتاتو بلاشبہ لوگ ہنس پڑتے۔ اپنے کیرئیرکے عروج پر وہ ہر ٹیسٹ میچ میں پانچ وکٹیں لیتے تھے اور پاکستان کے کپتان کی حیثیت سے ان کی بیٹنگ اوسط 52 تھی۔

جب وہ اپنی ماں کے نام پر کینسراسپتال بنانے کے لئے نکلے تو غیر تو غیر ان کے اپنے خاندان کو بھی یقین نہ تھا کہ ایسا ہو سکے گا۔ تاریخ میں درج رہے گا کہ وہ کامیاب ہوئے ۔ اور کیسے کامیاب ہوئے۔ اب وہ کراچی میں ایک اور کینسر اسپتال بنا رہے ہیں۔جب وہ سیاست میں آئے تو لوگوں نے سوچا کہ محض توجہ حاصل کرنے کے لئے ایسا کیا ہے کیونکہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد گمنامی برداشت نہ کر سکتے تھے۔ لیکن وہ کامیاب ہونے کے لئے اپنا وژن اور ناقابل یقین ارادہ لے کر آئے اور بالآخر کئی الیکشن ہارنے کے بعد وہ آج پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔

جب وہ وزیر اعظم بنے تو اپنے ساتھ بدعنوانی اور بدانتظامی سے تنگ لوگوں کی بہت سی نیک خواہشات لے کر آئے تھے۔ اس وقت ایسا لگتا تھا کہ وہ ناکام ہو ہی نہیں سکتے۔ لیکن آج انہیں اپنے اہداف حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ انہوں نے خود کو معیشت کی وجہ سے ایسے مقام پر کھڑا کر دیا ہے کہ انہیں اب بیک وقت دو بپھرے ہوئے طوفانوں کا سامنا ہے۔عمران خان نے ماضی کے کرپٹ حکمرانوں کے احتساب اور ان کے جرائم کی سزا کے لئے اپنی پوری کوشش کی۔ لیکن چونکہ وہ ایک طاقتور مافیا ہیں، جیسا کہ عمران خان خود کہتے رہتے ہیں، انہوں نے اب تک خود کو بڑی حد تک احتساب سے بچا ئے رکھا ہے۔ درحقیقت، ان کی اولاد ان کی سیاسی جانشین بننے کی تیاری کر رہی ہے۔ وہ ایک حالیہ سرکاری تقرری پر ایک بڑا اختلاف اٹھا بیٹھے ہیں۔ ان کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ شاید اس طوفان سے نکل آئیں ، لیکن انہیں اپنی بہت سی غلطیوں اور اپنی حکمرانی پر غور کرنا چاہئے۔

عمران کی سب سے بڑی ناکامی اچھی ٹیم نہ بنانا ہے۔ ثانیہ نشتر کی طرح ان کے پاس ایک یا دو اچھے لوگ تھے اور اب بھی ہیں، لیکن ان کے پاس سب سے اچھا آدمی ان کے سابق وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ تھے، جن سے انہوں نے نامعلوم کیوں چھٹکار احاصل کیا۔ ان کی جگہ انہوں نے ایک سابق وزیر خزانہ اور ایک کمرشل بینکر کو مقرر کیا اور نتائج ہمارے سامنے ہیں۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، جس سے عبدالحفیظ شیخ چھٹکارا پانے میں کامیاب ہو گئے تھے، نے ایک بار پھر سر اٹھالیا ہے اور اطلاعات ہیں کہ یہ خسارہ اب 10 ارب ڈالر ہے۔ یہ مضحکہ خیز بات ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قدر میں بڑے اضافے کے باوجود، درآمدات بڑھ رہی ہیں اور برآمدات گر رہی ہیں جس سے مزید بڑا تجارتی خسارہ پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں جو اچھی علامت نہیں۔ جب تک آپ یہ کالم پڑھیں گے تب تک شاید یہ حل ہو چکا ہو لیکن اس کی کافی زیادہ قیمت ہوگی۔ آئی ایم ایف حکومت کو بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کرنے پر مجبور کرے گا جو مہنگائی کو اور بڑھا دے گا جس سے لوگوں کی قوتِ خریدمزید کم ہو جائے گی۔ ایسی صورتحال معاشرے میں بے چینی کا باعث بن سکتی ہے اور پھر عمران کے بے شمار مخالف اس بات سے فائدہ اٹھائیں گے۔

میری خواہش ہے کہ عمران خان ان مشکلات میں سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اتنی مہنگائی ہو گئی ہے کہ غریب آدمی نے فقیروں کی طرح زندگی گزارنا شروع کر دی ہے۔ غریب آدمی کو چھوڑیں، اچھی حیثیت والوں کو بھی مشکلات کا سامناہے۔ ہمارے گھر میں پہلے کی نسبت کم کھانا پک رہا ہے اور میں پہلے سے کم کھاتا ہوں۔ لہٰذا جب لوگ تبصرہ کرتے ہیں کہ میرا وزن کم ہو گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں کم کھا رہا ہوں۔ آپ اسے ’عمران خان ڈائٹ‘ کہہ سکتے ہیں۔ ویسے ہمایوں گوہر کا وزن کم کرانا ایک ناممکن کام تھا جسے عمران خان نے ممکن کر دکھایا۔ اب گاڑی رکھنا، ہوائی جہاز سے کراچی جانا اور بہت سی دوسری چیزیں جو ہماری روز مرہ کی زندگی کا حصہ تھیں، مشکل ہوتی جا رہی ہیں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میرے والد نے ورثے میں مجھے ایک گھر دیا ورنہ میں اب تک بے گھر ہوتا۔ اب جائداد خریدنے کا سوچنا بھی ناممکن ہے۔ یہاں تک کہ نئی گاڑی خریدنے کے بارے میں سوچنا بھی سر چکرا دیتا ہے۔ ان سب کے علاوہ لوگ ذاتی پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔کوویڈ کی وجہ سے روزانہ بہت سی اموات ہو رہی ہیں ۔ میرے ایک برادرنسبتی کا انتقال ہوگیااور پھر میرے پیارے کزن بابر تجمل ناگہانی موت کا شکار ہوئے۔ یہ صورتحال حالات کو مزید خوفناک بنارہی ہے۔

عمران خان کے لئے ضروری ہے کہ شہریوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے کوئی فوری راستہ تلاش کریں۔ ایسا کرنا ان کے مخالفین کے غبارے سے ہوا نکال سکتا ہے۔ وہ اپنی اپنی جگہ پر ایک ڈرائونے خواب کی طرح موجود ہیں۔ آپ نے نواز شریف کی بیٹی یا بے نظیر کے بیٹے کا انداز گفتگو سنا ہوگا۔ ان کے ارد گرد موجود بہت سے لوگوں سے کوئی اچھی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ لیکن پھر اچھے لوگ جو پاکستانی سیاست کے شیطانی میدان میں داخل ہونے کے لئے تیار ہوں وہ بہت کم ہیں۔ بہت ہی کم ۔

تازہ ترین