بیلجیم میں ہونے والی سائیکلنگ چیمپئن شپ میں پاکستانی کھلاڑیوں کی شرکت سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔مرد اور خواتین کھلاڑیوں میں سے کوئی بھی ایونٹ میںجانے سے قبل کئے گئے دعووں کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکا ۔ایک پاکستانی خاتون کھلاڑی نے تو بڑی مشکل سے دیئے گئے ہدف کو عبور کیا۔
چاروں کھلاڑی ایونٹس کی نچلی پوزیشنوں پر رہے۔ عالمی روڈ سائیکلنگ چمپئن شپ میںپاکستان کی چار رکنی ٹیم نے شرکت کی جس میں دو خواتین کنزہ ملک اور عاصمہ جان پہلی بارشپ میں حصہ لینے کی اہل قرار پائیں۔ مردوں میں خلیل امجد اور علی الیاس شامل تھے۔چیمپئن شپ میں 43.3کلومیٹر ٹریک پر مشتمل مردوں کا آئی ٹی ٹی ایونٹ اور 30.3کلو میٹر کا خواتین کا ٹائم ٹرائل ایونٹ شاملتھا، جس میں پاکستانی کھلاڑیوں نے شرکت کی۔
چیمپئن شپ کے آغاز سے قبل کہا یہ جارہا تھا کہ قومی سائیکلسٹوں نے ایونٹ کی تیاری کیلئے کراچی میں بھرپور ٹریننگ کی اور ان کھلاڑیوں نے غیر ملکی ٹرینر کی آن لائن رہنمائی بھی حاصل کی تھی۔ مگر جب چیمپئن شپ کا انعقاد ہوا تو پاکستانی مرد سائیکلسٹس ٹاپ 50 میں بھی جگہ نہ بنا سکےاور 43.3 کلومیٹر کی ریس میں پاکستان کے علی الیاس نے 52 ویں جبکہ خلیل امجد نے 54 ویں پوزیشن حاصل کی۔علی الیاس پہلی اسپلٹ کے اختتام پر 53 ویں پوزیشن پر تھے تاہم بقیہ 2 اسپلٹس میں انہوں نے 52 ویں پوزیشن پرریس ختم کی۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک بات بڑے شد و مد سے کی جاری ہے کہ پاکستان سائیکلنگ فیڈریشن( اظہر شاہ گروپ) پیسے لیکر کھلاڑیوں کو غیرممالک لیکر جاتے ہیں اور انہیں سلپ کرادیتے ہیں۔ پاکستان سائیکل فیڈریشن کے سیکرٹری سید اظہر علی شاہ سے جب جنگ سے عالمی چیمپئن شپ میں کارکردگی کے حوالے سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ عالمی سائیکلنگ میں دو سو سے زائد ممالک شامل ہیں۔
اس بارکوویڈ19 کے باعث کئی ممالک کے سائیکلسٹ شرکت کیلئے نہیں آئے۔ اس کھیل کی تاریخ دوسوتین سو سال پرانی ہے اور اس میں شرکت کرنے والے زیادہ ممالک کئی دہائیوں سے اس میں شرکت کررہے ہیں ہمیں تو ابھی صرف ڈھائی تین سال ہوئے ہیں ہمارے کھلاڑیوں نے اس میں باضابطہ شرکت کررہے ہیں۔ ہم نے بھرپور محنت کرکے پاکستانی کھلاڑیوں کو عالمی ایونٹ کا حصہ بنوایا ہے اور اب باقاعدگی سے ہمارے کھلاڑی انٹرنیشنل سائیکلنگ ریس میں حصہ لے رہے ہیںجس کے مقابلے لائیو کئی ممالک میں ٹیلی کاسٹ ہوتے ہیں۔پاکستان کا نام دو سو سے زائد ممالک میں پہچانا جانے لگا ہے ۔
ہمارے کھلاڑی عالمی چیمپئن شپ کیلئے بھی کوالیفائی کررہے ہیں یہ ہمارے لئے اور اس ملک کیلئے بڑا اعزاز ہے۔ ہماری رینکنگ بھی عالمی رینکنگ میں اچھی ہوتی جارہی ہے۔ امید ہے اگلے اولمپکس میں ہماری ٹیم کوالیفائی کرلے۔ کھلاڑیوں کے غیرممالک میں سلپ کرانے کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ جو کام کرتا ہے اس پر الزامات لگائے جاتے ہیں ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ دوسری جانب بلجیم میں ہونے والی ورلڈ روڈ سائیکلنگ چیمپئن شپ میں بھیجی جانے والی ٹیم کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، مختلف عہدیداروں کا کہنا ہے کہ عالمی چیمپئن شپ کیلئے ایک معمولی کلب کی ٹیم کو پاکستان کا نام دے کر پاکستان اسپورٹس بورڈ نے ملک کا نام بدنام کرنے کی سازش کی ہے۔
سائیکلنگ فیڈریشن نے پیسہ بنانے کیلئے کروڑ پتی کھیل سے تعلق نہ رکھنے سائیکلسٹوں کو بھیجا جو غیرتربیت یافتہ تھے۔ ورلڈ سائیکلنگ کیلئے بھیجی جانے والی دونوں لڑکیوں کو سندھ سائیکلنگ چیمپن حمیرا بلوچ عبرتناک شکست دیتی رہی ہیں اور پاکستان اولمپکس ایسو سی ایشن ، پاکستان سائیکلنگ فیڈریشن کے دونوں دھڑوں پر پابندی لگا کر ان کی رجسٹریشن ختم کرچکی ہے اس کے باوجود پاکستان اسپورٹس بورڈ کے حکام نے این او سی جاری کرکے جانب داری کا مظاہرہ کیا ہے اور باصلاحیت سائیکلسٹوں پر ظلم کیاہے۔
ٹرائلز کے دوران پی ایس بی کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا اور نہ ہی ٹرائلز میںآرمی، واپڈا، ریلوے ، واہ آرڈینیس فیکٹری ، یونیو ورسٹی گرانڈز کمیشن اور چاروں صوبوں کی نمائندگی موجود تھی ۔صدر پاکستان ، وزیر اعظم پاکستان اور وفاقی وزیر فہیدہ مرزا پاکستان کے باصلاحیت سائیکلسٹوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا نوٹس لیں اور ذمہ داروں کے خلاف سخت ایکشن لیں۔