گذشتہ دنوں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں نوجوان مصنفہ سیدہ رباب عالی کی کتاب’’ Social Equity ‘‘کی رونمائی ہوئی، جس میں معروف اسکالرز اور ادیبوں نے شرکت کی تقریب کے مہمانِ خصوصی پروفیسر خالد مرزا تھے، پروفیسر ڈاکٹر رخسار احمد، حنا عثمانی، بیرسٹر ڈاکٹر ہما سدھیر اور احمد چنائے نے تقریب سے خطاب کیا۔
اس موقع پر مہمانِ خصوصی پروفیسر خالد مرزا نے کہا کہ،’’ میں کتاب سے بہت متاثر ہوں، نوجوان مصنفہ بلاشبہ قابل تعریف ہے، جب مجھے پتا چلا کہ کتاب کا موضوع سماجی مساوات ہے تو میرا دماغ بلبلا اُٹھا، انہوں نے کہاکہ مساوات انصاف ہے اگر کسی کے پاس تمام مواقع ہیں اور کوئی جو عام پس منظر میں آ رہا ہے اگر آپ ان دونوں کو مساوی موقع فراہم کرتے ہیں تو یہ واقعی ناانصافی ہے، انصاف کا انحصار مختلف پہلوؤں پر ہوتاہے ۔ رباب نے اس کتاب میں اس کی تمام وضاحت کی ہے، اس میں کچھ باب عدلیہ پر ہیں وہ انہیں ضرور پڑھیں۔
احمد چنائے نے کہاکہ ،میں حیران ہوں کہ یہ دنیا کتنی صلاحیت رکھتی ہے ، یہ نوجوان مصنفہ ظاہر کرتی ہے کہ ہم کتنے تخلیقی ہیں اور اس ملک کا مستقبل کتنا روشن ہے، اس نے تمام سماجی موضوعات جیسے فنانس ، معاشیات ، صنفی مساوات ، معذوری وغیرہ کا احاطہ کیا،مجھے فخر ہے کہ 15 سال کی عمر میں اس نے حساس مسئلے کا انتخاب کیا ۔
پروفیسر ڈاکٹر رخسار احمد نے کہاکہ میں نے 15 کتابیں 15 سالوں میں لکھی اور یہاں 15 سال کی بچی نے کتاب لکھ دی وہ بھی ایسا موضوع، جہاں انصاف کی شفافیت کی بات ہوئی جنہیں ہم سماجی مساوات کہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ اگر اس ملک کے بچے رباب کی طرح ہیں تو اس قوم کا مستقبل بہت شاندار ہوگا، اس موضوع پر قلم اٹھانا نہایت مشکل کام ہے۔
حنا عثمانی نے کہاکہ، صنفی مساوات ، معذور افراد ہر ایک کو معاشرے کا یہ پہلو دیکھنا چاہیے، آج یہ دیکھ کر خوش ہوں کہ نوجوان نسل اس موضوع میں دلچسپی رکھتی ہے۔ بیرسٹر ڈاکٹر ہما سدھیر نے کہاکہ، جب مجھے معلوم ہوا کہ رباب نے کچھ لکھا ہے تو میں حیران نہیں ہوئی، مگر اتنے حساس مسئلے پر ایک نوعمر نے کتاب لکھی ہے یہ حیرت انگیز بات تھی۔
رباب نے اس کتاب میں سماجی مساوات کے بہت سے موضوعات کا حیرت انگیز طور پر احاطہ کیا ہے انہوں نے کہاکہ معاشرے میں ایسے موضوع سامنے آنے چاہئیں جو ہم پسماندہ لوگوں کو فراہم کرسکیں۔ رباب کا کام سمندر میں ایک قطرہ ہے اور یاد رکھیں کہ ہر قطرہ اہمیت رکھتا ہے۔
مصنفہ سیدہ رباب عالی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب میں نے پاکستان کا سفر کیا تو دیکھا کہ کچھ لوگوں کو بنیادی ضروریات زندگی حاصل نہیں ہیں۔ انہیں کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے ، میں نے اپنی والدہ سے اس پر تبادلہ خیال کیا ، انہوں نے مجھے کتاب لکھنے کا مشورہ دیا، ہم اکثر مساوات کے بارے میں زیادہ کثرت سے سنتے ہیں اور ہم اس کے بارے میں جانتے ہیں لیکن ایکوئٹی کم ہے ، میں اسے انتہائی اہم سمجھتی ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ لوگ اس کتاب کے ذریعے اس کے بارے میں جانیں۔