کراچی کے موسم کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کراچی کے موسم اور محبوب کے مزاج کا کچھ بھروسا نہیں۔ کراچی کا موسم ایسا ہی ہے۔ ابھی تیز دھوپ تھی اور ابھی کالی گھٹا گھر کے آئی اور آسمان کو ڈھانپ لیا۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی بھی شروع ہو گئی۔ کبھی کبھی جون جولائی اگست میں کراچی کا موسم ملکہ کوہسار مری کے موسموں کا مقابلہ کرتا ہے۔ کبھی ہلکی ہلکی بوندا باندی تو کبھی تیز بارش۔
میں 1976-77 میں شمال مشرقی بلوچستان کی ایک تحصیل بارکھان میں ایک کالج میں لیکچرر تھا۔ جون میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوتیں تو ہم بھی واپس گھر یعنی کراچی کی طرف روانہ ہوتے۔ جون میں پورے ملک میں سخت گرمی ہوتی ہے۔ بارکھان میں موسم ٹھنڈا ہوتا لیکن ہزاروں فٹ بلند کوہ سلیمان عبور کرکے بس ڈیرہ غازی خان میں داخل ہوتی تو گرم لو کی لپیٹوں سے واسطہ پڑتا۔ پیچھے بلوچستان سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آتے اور کوہ سلیمان کی اترائی شروع ہوتے ہی ایسا لگتا کہ جیسے جنت سے جہنم میں داخل ہورہے ہیں۔
پھر ڈیرہ غازی خان سے کراچی کی جانب جنوبی پنجاب سے گزر کر سندھ کا سفر بھی جسم تو کیا روح تک کو جھلسا دیتا۔ لیکن حیدر آباد، جامشورو سے آگے بڑھتے تو کراچی کی طرف سے ٹھنڈی سمندری ہواؤں کے جھونکے روح کو بالیدہ کردیتے۔
میں 1949 میں کراچی میں مہاجروں کے ایک خیمے میں پیدا ہوا۔ یہ خیمے لائنز ایریا میں سینٹ پیٹرک کالج سے لے کر بندر روڈ تک پھیلے ہوئے تھے۔ میں چھوٹا بچہ تھا لیکن جب میں نے چلنا سیکھا تو خیمے سے نکلتا اور بندر روڈ(نیا نام ایم اے جناح روڈ) تک چلا جاتا۔ اس زمانے میں بندر روڈ کے کنارے قدیم برگد، نیم اور پیپل کے درخت لگے ہوئے تھے جن کی ٹھنڈی چھاؤں میں گھنٹوں بیٹھ کر گزرنے والے ٹریفک کو دیکھا کرتا۔
اس زمانے میں کراچی بہت سرسبز تھا۔ بڑی سڑکوں اور گلیوں میں پرانے اور گھنے درخت ہر جگہ موجود تھے۔ بندر روڈ پر نمائش، گرو مندر اور ٹاور تک دونوں جانب برگد، نیم، پیپل دس سے بیس گز کے فاصلے پر لگے ہوئے تھے۔ یہ درخت اتنے گھنے اور سایہ دار تھے کہ لوگوں نے ان کے نیچے اپنی دکانیں لگا رکھی تھیں۔ صدر میں بھی فٹ پاتھوں پر درختوں کے نیچے دکانیں تھیں۔ صدر سے نکل کر فریر ہال کی طرف جاتے تو یہ علاقہ بھی بہت سرسبزتھا۔ لوگ شام کو تفریح کے لیے فریر ہال اور جہانگیر پارک کے سبزہ زاروں پر دن بھر کی تھکن اتارنے آیا کرتے۔
کراچی کے موسم کو حسین بنانے میں سایہ دار درختوں کا اہم کردار تھا۔ املی، پیپل، نیم، املتاس، سوہانجنا، چمپا، برگد، لیگنم، آم، امرود، جنگل جلیبی، چیکو، پپیتا، جامن، شریفہ اور گل مہر جگہ جگہ جھومتے نظر آتے۔اس دور میں شہر کراچی سینٹرل جیل کی عمارت پر ختم ہوجاتا تھا اور آگے جنگل بیابان تھا۔ دوسری طرف لیاری ندی شہر کی آخری حد تھی۔ شہر کی تمام بڑی اور مرکزی سڑکیں صبح صبح پانی سے دھلا کرتی تھیں۔ جس سے ناصرف موسم ٹھنڈا ہوتا بلکہ صفائی بھی ہوتی۔
کراچی کی پرانی عمارتیں پتھر اور مٹی سے بنی تھیں۔ یہ پتھر کراچی کے نواح کے پہاڑوں کا نہیں تھا بلکہ تھر اور راجپوتانہ کے پہاڑوں سے نکالاجاتا اور اینٹوں کی شکل میں تراش کر کراچی لایا جاتا۔ ان کے اندر درزیں ہوتیں جن سے ہوا اور ٹھنڈک گزر سکتی۔ یہ عمارتیں گرمیوں میں ٹھنڈی اور سردیوں میں گرم رہتیں۔ فریر ہال اور سندھ ہائیکورٹ کراچی کی پُرانی ہوادار عمارتیں اس ٹیکنالوجی کی ایک عمدہ مثال ہیں۔جب شہر میں کنکریٹ اور سیمنٹ کی عمارتیں بننا شروع ہوئیں تو موسم میں گرمی آگئی۔
بعد میں درختوں کی کمی نے بدترین اثرات مرتب کیے۔ 2015 میں پڑنے والی قیامت خیز گرمی (ہیٹ ویو) کراچی کے شہریوں کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھی جس میں سیکڑوں شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہزاروں بیمار ہوئے۔ سایہ دار درخت ختم ہوگئے تھے۔ شہر میں کوئی ایسی نہر، ندی نالا یا پانی کا تالاب نہیں تھا جہاں لوگ اس گرمی میں خود کو ٹھنڈا کرسکتے۔ شہر اور اس کے نواح سے جو چار پانچ برساتی ندی نالے گزرتے تھے ان میں قیام پاکستان سے پہلے تو صاف پانی ہوتا تھا لیکن اب سیوریج کے سارے نکاس ان نالوں میں کھول دیے گئے تھے۔
ان نالوں میں اب گندا پانی بہتا ہے۔ میں جب چار پانچ سال کا ہوا تو ناظم آباد میں آبادی شروع ہوئی تھی۔ ناظم آباد سے آگے جنگل تھا۔ رات کو ہم گیدڑوں اور دوسرے جنگلی جانوروں کی آوازیں سنتے۔ ناظم آباد کی سڑکیں میرے سامنے بنیں۔ ناظم آباد سے اورنگی نالہ گزرتا تھا جس میں اس زمانے میں بھی شفاف پانی بہتا تھا جس میں مچھلیاں ہوتی تھیں اور ہر اتوار کو ہم بچے کیچوے اور کانٹا لے کر اورنگی نالے پر جایا کرتے تھے۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ سائیٹ ایریا سے کسی کارخانے نے زہریلا کیمیکل زدہ پانی نالے میں چھوڑ دیا جس کے نتیجے میں ہزاروں مچھلیاں مر گئیں۔ اس دن ہم کو ایسا لگا جیسے ہمارے پہلو سے کسی نے دل نکال لیا ہے۔
کراچی کا وہ موسم جس کی مثالیں محبوب کے مزاج سے دی جاتیں، ہیٹ ویوز کے حوالے سے دنیا بھر کے اخبارات میں شہہ سرخیوں کا سبب بنا۔اس کا سبب عموماً یہ ہے کہ سمندری ہوا مسلسل سمندر سے شہر کی جانب چلتی رہتی ہے جو شہر کو ٹھنڈا رکھتی ہے۔ یہ نسیم بحری کہلاتی ہے اگر یہ ہوا اپنا رخ بدل لے تو شہر میں قیامت خیز گرمی پڑجاتی ہے۔ باقی کسر کنکریٹ کی عمارتیں اور تارکول کی سیاہ سڑکیں پوری کردیتی ہیں جو حرارت کو جذب کرتی ہیں۔یہ حرارت پھیلنے لگتی ہے اور ہوا کو گرم کر دیتی ہے ۔
اگر ہوا کی نکاسی کا راستہ نہ ہو اور عمارتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوں تو یہ حرارت وہاں پھنس جاتی ہے اور علاقے کا درجہ حرارت دیگر علاقوں سے کم از کم دس بارہ ڈگری بڑھ جاتا ہے۔ گرمی کم کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ اول، زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں تاکہ ان سے ٹھنڈک پھیلے اور ان کے سائے میں لوگ بیٹھ سکیں۔ اگر گھر چھوٹا ہے تو گھر کی دیوار پر کوئی خوبصورت پھول دار بیل چڑھادیں، اس سے دھوپ کی شدت کم ہوگی۔کراچی پر تو اللہ کا خاص کرم ہے کہ یہاں نو دس ماہ سمندری ہوا چلتی ہے۔ اس ہوا کے راستے میں بلند عمارتیں رکاوٹ بن گئی ہیں لیکن پھر بھی یہ ہوا راستہ بنا لیتی ہے۔
اس سال (ستمبر 2021میں)کافی بارشیں ہوئیں حالانکہ کبھی کبھی یہ موسم خشک بھی گزر جاتا ہے۔طوفان بھی سامنے سے گزرا۔ اگرچہ کراچی طوفان کی براہ راست زد میں آنے سے بچ گیا لیکن ہلکی بارش نے موسم خوش گوار کردیا۔ اکتوبر کراچی کا خشک ترین مہینہ ہے۔ یکم اکتوبر 1959 کو درجہ حرارت 43.3 سینٹی گریڈ(لگ بھگ 110 ڈگری فارن ہائیٹ) تک پہنچ گیا تھا۔ ایسی شدید گرمی تو ریگستانوں ہی میں ہوتی ہے۔ ٹھنڈا ترین اکتوبر 1949 کی 30 تاریخ کو گزرا جب پارہ 10 سینٹی گریڈ تک گر گیا تھا۔اکتوبر میں سب سے زیادہ بارش 1956 میں 98 ملی میٹر ہوئی۔
کراچی دنیا کے اس چند شہروں میں شامل ہے جہاں ایک سال کے اندر دو مرتبہ موسم گرما آتا ہے۔ یعنی قبل از مون سون موسم گرما اپریل مئی میں اور بعد از مون سون موسم گرما ستمبر اکتوبر میں۔ کراچی میں سمندری طوفانوں کا شور و غوغا تو ہوتا ہے لیکن کم ہی طوفان آتے ہیں۔ اور جب طوفان کی خبر آئے تو کراچی والے گھروں میں دبک کر بیٹھنے کے بجائے طوفان کا استقبال کرنے کلفٹن اور ہاکس بے پر پہنچ جاتے ہیں۔ اکتوبر میں شاذ و نادر ہی بارش ہوتی ہے لیکن 2-3 اکتوبر 2004 کو سمندری طوفان اونیل کے سبب دو دن میں 35 ملی میٹر بارش ہوئی۔
نومبر میں دن گرم اورراتیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ وسط نومبر کے حالات اکتوبر کی طرح ہیں۔ نومبر کے آخری ہفتوں کے دوران درجہ حرارت میں بتدریج کمی واقع ہوتی ہے اور اس طرح سردیوں کا آغاز ہوتا ہے، لیکن یہ اتنی سردی نہیں ہے۔ نومبر کے پہلے ہفتے میں عام طور پر موسم خشک ہوجاتا ہے اور نومبر کا آخری ہفتہ سرد ہوتا ہے۔ یہ سال کے خشک ترین مہینوں میں سے ایک ہے، نا صرف کراچی بلکہ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں بارش نہیں ہوتی۔
لیکن ہم نے شروع میں کہا تھا کہ کراچی کے موسم اور محبوب کے مزاج کا بھروسہ نہیں۔ 9 نومبر 2010 کو طوفان جل نے شہر میں تیز ہوائیں چلائیں۔ نومبر میں سب سے زیادہ بارش 83.1 ملی میٹر (3.27 انچ) 18 نومبر 1959 کو ہوئی۔ نومبر کا سب سے زیادہ درجہ حرارت 38.5 سینٹی گریڈ(101.3 فارن ہائیٹ) یکم نومبر 1994 کو ریکارڈ کیا گیا اور سب سے کم درجہ حرارت 29 نومبر 1938 کو6.1 درجہ سینٹی گریڈ (43.0 ° F) ریکارڈ کیا گیا۔
کراچی والے سمندری طوفانوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ لیکن کراچی کے لیے سب سے بڑا خطرہ سونامی ہے۔ماہرین کے مطابق کوئی بھی بڑا زلزلہ گہرے سمندروں اور غیر معمولی زیر زمین جغرافیائی تبدیلیوں کی وجہ سے کراچی کے ساحل پر سونامی کا باعث بن سکتا ہے۔ 1945 میں کراچی سے 100 میل جنوب میں شمالی بحیرہ عرب میں زلزلہ آیا جس سے سونامی کی 23 فٹ اونچی لہر پیدا ہوئی۔ اس وقت کراچی ایک چھوٹا شہر تھا لیکن اس کے نتیجے میں 4000 سے زائد جانیں ضائع ہوئیں۔
اس واقعہ کو 77 سال گزر گئے۔اس کے بعد کراچی کے ساحل پر کوئی سونامی نہیں آیا، لیکن شہر کا محل وقوع اسے موسمی آفات کے لیے حساس بنا دیتا ہے۔ جس طرح کراچی مستقبل قریب میں طوفان کا نشانہ بن سکتا ہے اسی طرح سونامی کا سامنا بھی کر سکتا ہے۔
یہ یاد رہے کہ سونامی کی صورت میں صرف غریبوں کی بستیاں خطرے میں نہیں ہیں بلکہ اشرافیہ کے علاقے ڈی ایچ اے اور کلفٹن بھی خطرے میں ہیں۔ خدانخواستہ کراچی کو کسی 20 سے زیادہ اونچی لہر کا سامنا کرنا پڑا تو لاکھوں شہریوں کی جانیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔