• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قدیم تاریخی اہمیت کا حامل ’’خالق دینا ہال‘‘

کراچی شہر کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر واقع ایک قدیم‘ تاریخی اور خوب صورت عمارت خالق دینا ہال واقع ہے۔ یہاں تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے حوالے سے کئی اجلاس منعقد ہوئے جبکہ اس عمارت کو انگریز سرکار کی جانب سے عدالت کا درجہ دے کر تحریک خلاف کے عظیم رہنمائوں مولانا محمد علی جوہر ، ان کے بھائی مولانا شوکت علی ، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا نثار احمد کانپوری، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، پیر غلام مجدت سرہندی اور سوامی شنکر اچاریہ پر مقدمہ بغاوت چلایا گیا اور انہیں دو سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی جس کے باعث خالق دینا ہال کو تاریخی حیثیت حاصل ہوئی اور اس عمارت میں جرأت، ہمت، شجاعت اور حریت کی شاندار تاریخ رقم ہوئی۔

26ستمبر 1921ء کو کراچی میں مولانا محمدعلی جوہراور ان کے ساتھیوں پر جو مقدمہ 9جولائی 1921ء کو عید گاہ میدان میں منعقدہ خلافت کانفرنس میں اس قرار داد کے منظور کیے جانے کی پاداش میں چلایا گیا جس میں مولانا محمد علی جوہر اور ان کے ساتھیوں نے مسلمانوں کے لیے برطانوی افواج میں ملازمت کو کفر قرار دیا تھا۔ مقدمے میں مسلم قائدین نے الزامات کو قبول کیا۔

خالق دینا ہال میں قیام پاکستان کے بعد دسمبر 1947ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے نام سے آل انڈیا کے الفاظ ختم کردیئے جائیں، اسی طرح 11 اکتوبر 1947 ء کو قائد اعظم نے سول اور فوجی افسران کے ایک اجلاس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’’میرا پختہ یقین ہے کہ ہماری کامیابی اور فلاح نبی کریم ﷺکے مرتب کردسنہری اصولوں کو اپنانے میں ہی مضمر ہے، آئیں مل کر ہم اسلام کے زریں اصولوں پر مبنی جمہوریت کی بنیاد رکھیں۔ ‘‘

23جون 1948کو سندھ کے گورنر شیخ غلام حسین ہدایت اللہ نے کراچی کے خالق دینا ہال میں سندھ سیکریٹریٹ کے ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے سندھی عوام کو ہدایت کی کہ، وہ مہاجرین کے بارے میں وسیع القلبی کا عملی مظاہرہ کریں۔ غیر مسلم جہاں ہزاروں سرکاری آسامیاں خالی چھوڑ کر گئے ہیں ہمیں یہ خلا ہر صورت پُر کرنا ہے۔ مہاجرین کو متروکہ جائیدادوں اور خالی آسامیوں میں سے ان کے جائز حصّے سے محروم رکھنا غلط ہے۔انہوں نے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کو ملازمتوں کے حوالے سے اعتماد میں لیا۔

خالق دینا ہال، دراصل ایک لائبریری کے طور پر 1906ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔انگریزوں کے دور میں جب انگریز آفیسروں کی سرپرستی میں علم و ادب کی ترقی کا آغاز ہوا تو شہریوں کے لیے لائبریریوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔1851ء میں سندھ کے دوسرے کمشنر ،سربارٹل فریئر تھے، جن کے دور میں ان کاموں کا آغاز ہوا۔

کراچی کی پہلی لائبریری 1851ء میں لیڈیز کلب کے ایک کمرے میں وجود میں آئی جس کا نام جنرل لائبریری رکھا گیا تھا جسے بعد میں وسعت دی گئی۔کراچی کی د وسری لائبریری 1856ء میں قائم ہوئی جس کا نام’’ نیٹیوجنرل لائبریری‘‘ رکھا گیا۔ اس کا مقصد مقامی باشندوں میں پڑھنے کا شوق و شعور پیدا کرنا تھا تاہم ابتداء میں اس سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد قلیل تھی۔ زیادہ تر پارسی حضرات مطالعہ کے لیے آیا کرتے تھے۔

پچاس سال گزرنے کے بعد پرانی عمارت کو منہدم کر کے اس کی جگہ نئی عمارت تعمیر کی گئ توجولائی 1906ء میں یہ لائبریری غلام حسین خالق دینا ہال میں منتقل کر دی گئی، اس کا افتتاح کمشنر کراچی، مسٹر اے ڈی ینگ ہسبنڈ نے کیا اور اب بھی یہ لائبریری اسی عمارت میں قائم ہے۔ ابتداء میں عمارت اور لائبریری کی دیکھ بھال غلام حسین خالق دینا ٹرسٹ کے زیر انتظام تھی لیکن بعد میں کراچی میونسپلٹی کے سپرد کر دی گئی۔

خالق دینا ہال کے لیے کراچی کے ایک مخیر‘ ممتاز اور علم دوست شخصیت تاجر غلام حسین خالق دینا نے اس وقت 18ہزار روپے کی رقم اور ایک قطعۂ اراضی 2289 گز مختص کیااور یہ شرط رکھی کہ اس لائبریری کا نام ان کے نام سے منسوب کیا جائے، چوں کہ ہال کے لیے جگہ کم تھی‘ اس لیے اس وقت کی کمیٹی نے مزید زمین کے لیے بمبئی حکومت کو ایک درخواست دی ،جو 11فروری 1902ء کو منظور ہوئی ،جس کے بعد حکومت نے اس کی تعمیر کے لیے 2522گز کا ملحقہ قطعہ اراضی دے دیا۔ 

ہال کی تعمیر کے لیے رقم کی کمی کا مسئلہ درپیش آیا ۔ جس کے لیے کمیٹی نے کراچی میونسپلٹی کو مالی مدد کی درخواست دی جو قبول کر لی گئی اور میونسپلٹی نے 16ہزار کی رقم تعمیر کے لیے دی۔ ہال کی تعمیر کا آغاز 1905ء میں ہوا اور ایک سال کے قلیل عرصہ میں تقریباً38ہزار روپے کی کثیر رقم سے یہ عمارت مکمل کی گئی ۔ اس کی تعمیر میں غلام حسین خالق دینا کے علاوہ سر بارٹل فریئر‘ مسٹر موتی رام‘ ایس ایڈوانی ‘تھل رام خیم چند کابھی نمایاں حصہ ہے۔

خالق دینا ہال70فٹ لمبا اور 45فٹ چوڑا ہےجبکہ چھت 30فٹ اونچی کنک پوسٹ پر بنائی گئی ہے۔ ہال میں700سے 800افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ ہال کے تین اطراف 10فٹ چوڑا برآمدہ اور سامنے 52فٹ لمبا اور 32فٹ چوڑا سائبان ہے۔ یہ سائبان 16ستونوں پر کھڑا ہے۔ ہال کے چاروں طرف پتھروں کی سیڑھیاں ہیں جن کی تعداد ہر طرف 7ہے۔ ہال کے دو بڑے دروازے ہیں جبکہ دونوں اطراف 7،7 دروازے ہیں۔ہال میں تقریباً 500 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے ۔

عمارت کافرش سیمنٹ کی خوب صورت ٹائلوں سے مزین ہے‘ جبکہ اندرکناروں پر کالے ڈیزائن سے مزین فائل کئے ہوئے ہیں ، چھت پر برماٹیک کی لکڑی استعمال کی گئی ہے۔ اس کی تعمیر میں بھورے رنگ کا پتھر استعمال ہوا ہے۔ جب کہ ڈیزائن قدیم مغربی اور مشرق طرز تعمیر سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہے۔

مقدمہ بغاوت کے فیصلے کے بعد حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس عمارت میں کے ایم سی برابر کی حصہ دار ہوگی ،کیونکہ کے ایم سی نے کم و بیش اس کی تعمیر کے لئے آدھی رقم فراہم کی تھی۔ کمیٹی نے حکومت کے اس فیصلے پر احتجاج کیا لیکن بلآخر حکومت کے دبائو کے سامنے اس فیصلے کو آخر کار مان لیا جس کے بعد خالق دینا ہال لائبریری ایسوسی ایشن اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے گئے ،جس کے تحت بلدیہ عظمیٰ کراچی اور خالق دینا ہال لائبریری ایسوسی ایشن اس عمارت کی برابر کی حصہ دار قرار دی گئی۔

خالق دینا ہال میں سامنے کی طرف دو کمرے ہیں، ایک کمرے میں خالق دینا ہال لائبریری قائم ہے جبکہ دوسرے کمرے میں این جی او اسٹوڈنٹس ویلفیئر آرگنائزیشن (SWO)کا دفتر قائم ہے۔ یہ ادارہ غریب اور نادار طلبہ و طالبات کو کتابیں‘ بستے اور یونیفارم مفت مہیا کرتا ہے۔ لائبریری کا انتظام خالقدینا ہال لائبریری ایسوسی ایشن کی ذمہ داری ہے ۔ اس ایسوسی ایشن سے ملک کی ممتاز شخصیات وابستہ رہیں، جن میں بیگم رعنا لیاقت علی خان‘ فیض احمد فیض‘ حاجرہ مسرور‘ حکیم محمد سعید‘ دوست محمد فیضی‘ آغا مسعود حسین‘ محفوظ حسین‘ نسیم گاندھی‘ یونس رضوی‘ یونس ریاض‘ رفیق دائود اور دیگر شامل ہیں۔ 

لائبریری میں قدیم نادر اور نایاب کتب کا ذخیرہ موجود ہے اور اس کا شمار کراچی کی قدیم ترین لائبریریوں میں ہوتا ہے۔ اس میں تقریباً8000کتابیں ہیں، جن کی زیادہ تعداد انگریزی کتب کی ہے۔ اس لائبریری کو بلدیہ عظمیٰ کے علاوہ سماجی بہبود کی کونسل اور صوبائی کونسل بھی سالانہ امداد دیا کرتی تھی لیکن اب تینوں ادارے لائبریری سے مالی تعاون نہیں کر رہے جس کے باعث لائبریری کی صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے۔

26اگست 1994ء کو اس تاریخی عمارت کی تھی عقبی چھت دیمک لگنے سے زمین بوس ہوگئی تھی ، جس کے بعد اسے شہریوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔1997ء میں اس کی ازسر نو تعمیر کا آغاز ہوا اور ڈیڑھ کروڑ کی لاگت سے اسے دوبارہ مکمل کیا گیا۔ اس کام کی نگرانی سینئر ڈائریکٹر کلچر اینڈ اسپورٹس سیف الرحمن گرامی مرحوم نے کی تھی۔ ہال کے اندر نئی لائٹس ،نئے پنکھےاور سامنے کے برآمدے میں خوب صورت فانوس لگائے گئے، اس کے علاوہ بڑے برآمدے کے سامنے بڑے قمقمے لگائے گئے۔ 

دو اطراف بڑی سرچ لائٹس لگائی گئیں جو رات کو روشن ہوتی ہیں تو پوری عمارت انتہائی حسین نظارہ پیش کرتی ہے۔ 27فروری 1995ء کو ایک بار پھر خالق دینا ہال کی عقبی چھت کا حصّہ اچانک گر گیا جس کے لیے تحقیقات کا حکم دیا گیا اور فوری طور پر اس کی مرمت کا فیصلہ کیا گیا۔1996 ء میں اس چھت کی تعمیر مکمل کرکے ایک بار پھر یہ ہال سماجی‘ ثقافتی‘ مذہبی‘ سیاسی اور ادبی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ۔

یہ خوب صورت عمارت آثار قدیمہ میں بھی شامل ہے اور آج بھی یہ علمی ‘ ادبی‘ تہذیبی‘ ثقافتی اور سیاسی سرگرمیوں کے لیے مقبول عام کا درجہ رکھتی ہے۔ طویل عرصہ سےمحرم الحرام میں یہاں مجالس کا اہتمام کیا جا رہا ہے جس سے علامہ رشید ترابی، علامہ طالب جوہری‘ علامہ عقیل ترابی‘ علامہ قلبِ صادق(انڈیا) سمیت ممتاز علماء کرام اور ذاکرین خطاب کرچکے ہیں۔ایک طویل مدت تک علامہ رشید ترابی یہاں محرم کی مجلس سے خطاب کیا کرتے تھے جو بے انتہا مقبول ہوئیں اور اس مجلس میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوتے رہے۔

ماہ ربیع الاوّل میں سیرت النبیؐ کے جلسوں کے ساتھ ساتھ محافل نعت بھی اس ہال میں منعقد کی جاتی رہیں۔ رمضان المبارک کے ابتدائی ایام میں خالق دینا ہال میں پانچ روزہ تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

14اکتوبر1980کو پاکستان کے مشہور سیاستدان اور عالم دین مولانا مفتی محمود کراچی میں وفات پاگئے ۔ اُن کی یاد میں خالق دینا ہال میں ’’بیادِ مفتی محمود کانفرنس‘‘ منعقد کی گئی، جس سے ملک کے بڑے بڑے رہنمائوں نے خطاب کیا۔ اسی طرح محفل مشاعرہ ، محفل غزل اور قومی نغموں کے مقابلے بھی یہاں منعقد ہوتے رہے۔ 

محفل مشاعرہ میں ملک کے ممتاز شعراء نے شرکت کی، یہاں شادی بیاہ کی تقریبات بھی منعقد ہوا کرتی تھیں جن پر پابندی عائد کردی گئی ہے موقف یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہال کے تقدس کے پیش نظر شادی بیاہ کی تقریبات کا انعقاد یہاں نہیں ہوسکتا کیونکہ ان تقریبات سے اس تاریخی ہال کا تقدس مجروح ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں طلبا و طالبات کے درمیان معلومات عامہ ، تقاریر اور مضمون نویسی کے مقابلے بھی منعقد ہوتے رہے اور مختلف اداروں کے زیر انتظام کانفرنسز، سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد بھی اس ہال میں کیا جاتا رہا۔

تازہ ترین