محمد اسلام
ارسلان کا گھرانہ تہذیب، شائستگی اور عمدہ روایات کا حامل تھا۔ اس کا بنیادی سبب ارسلان کی امی تھیں انہوں نے گھر میں نہ صرف مثالی ماحول بنارکھا تھا بلکہ وہ بچوں کی تعلیم وتربیت کا بھی خوب خیال رکھتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ 10سالہ ارسلان اچھی تربیت کی وجہ سے اپنے والدین کا فرماں بردار بچہ تھا۔
چنددن سے ارسلان کچھ اداس سا دکھائی دے رہا تھا، اُس کی امی نے اسے اپنے پاس بلایا اور پیار سے اس رویئے کی وجہ دریافت کی۔ ارسلان پہلے تو ہچکچایا ،مگراُن کے پیار بھرے روئیے کی وجہ سے ہمت کرکے اس نے بتایا کہ،’’ امی جان، میں چاہتا ہوں کہ کوئی ایسا کام کروں کہ سب میری عزت کریں اور مجھ سے محبت وشفقت سے پیش آئیں، مگر میری سمجھ میں نہیں آرہا میں ایسا کیا کام کروں۔‘‘ یہ بات سن کر اس کی امی نے کہا، بیٹا ابھی تم چھوٹے ہو لہذا فی الحال ایسا کیا کام کرسکتے ہو؟
ارسلان نے فوراً جواب دیا امی جان، میں یہی بات سوچ سوچ کرپریشان ہورہا ہوں۔ آپ میری مدد کریں۔ ارسلان کے اصرارپر اس کی امی سوچ میں پڑگئیں اور پھر کسی خیال کے تحت مسکرائیں۔ انہوں نے ارسلان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا،’’بیٹا !تمہارا مسئلہ حل ہوگیا۔ آج سے تم جسے بھی دیکھو چاہے تم اسےجانتے ہو یا نہیں ،اسے سلام کرنے میں پہل کرنا‘‘۔ ارسلان نے حیرت سے کہا،’’ امی جان اس سے کیا میرا مقصد پورا ہوجائے گا‘‘۔ امی نے کہا بیٹا تم ایسا کرکےتو دیکھو۔
بس بچوں پھر کیا تھا ارسلان نے امی کی بات گرہ میں باندھ لی۔ اسکول میں وہ اساتذہ اور کلاس فیلو کو سب سے پہلے سلام کرتا بلکہ وہ چوکیدار اور دیگر اسٹاف کو بھی سلام کرنے میں پہل کرنے لگا۔ ارسلان میں آنے والی اس تبدیلی کو دیکھ کر اسکول میں سب کو خوش گوار حیرت ہوئی۔
ارسلان جب گھر سے باہر نکلتا تو گلی میں آنے جانے والے ہر فرد کو دیکھتے ہی السلام علیکم کہتا۔ اگر سبزی اور پھل فروخت کرنے والے ٹھیلا لے کر گلی میں آتے تو وہ انہیں بھی سلام کرتا۔ کچھ ہی دنوں میں ارسلان کو اسکول، کھیل کے میدان اور گلی محلے میں سب لوگ اس سے محبت اور شفقت کا سلوک کرنے لگے۔ وہ خاصا مقبول ہو گیا تھا ۔لوگ اسے دیکھ کرکہتے تھے کہ ’’ یہ بچہ سب کوسلام کرنے میں پہل کرتا ہے‘‘۔
ایک دن ارسلان کی کرکٹ کی گیند کہیں کھو گئی، اس نے سارے گھر میں اسے تلاش کیا، مگر وہ نہیں ملی۔ لہذا اس نے نئی گیند خریدنے کا فیصلہ کیا اور اپنی امی کو بتایا کہ وہ قریبی دکان سے بال لے کر آرہا ہے۔ دکان پر پہنچ کر اس نے دکان دار کو پہلے سلام کیا اور اس سے پوچھا آپ کے پاس کرکٹ کی گیند ہے ۔ دکان دار نے بتایا کہ چند دن پہلے اسٹاک ختم ہوگیا ہے اگر تم پندرہ بیس منٹ دائیں جانب پیدل جاؤ تو وہاں ایک بڑا بازار ہے تمہیں وہاں سے گیند مل جائے گی۔
اس نے پیدل سفر شروع کیا اور اپنے ہی خیالوں میں مگن ہوکر گیند کا تصور کیے بازار کی طرف روانہ ہوگیا۔ آخرکار چلتے چلتے بازار آ گیا اچھا بڑا بازار تھا اور وہاں بہت ساری دکانیں تھیں اور ہرطرح کا سامان فروخت ہورہا تھا۔ رش بھی بہت تھا، مگر اس نے بڑی تک ودو کے بعد کھیلوں کے سامان کی دکان تلاش کرہی لی۔ گیند خرید کر جب وہ واپسی کے لیے مڑا تو اس کی ساری خوشی کافور ہوگئی کیوں کہ وہ اپنے گھر کا راستہ بھول چکا تھا۔
اس نے سوچا اجنبی لوگوں سے راستہ معلوم کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے لیکن اب وہ کیا کرے یہاں کوئی جاننے والا بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا ارسلان سڑک کے کنارے پریشان کھڑا تھا کہ ایک کیلے بیچنے والا اس کے قریب آیا اور مسکرا کر اسے دیکھا اور کہا کہ بیٹا تم یہاں کیا کررہے ہو ، خیریت تو ہے؟ ارسلان کیلے والے کو فوراً پہچان گیا وہ روز اس کی گلی میں کیلے بیچنے آتا تھا ۔لہذا اُس نے اسے پوری بات بتادی۔
کیلے والے نے کہا،’’ بیٹا تم بالکل پریشان مت ہو، تم بہت اچھے بچے ہو میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ آتا ہوں ۔‘‘جب وہ کیلے والا ارسلان کے گھر پہنچا تو اس کی امی بہت پریشان تھیں اور بے چینی سے اس کی منتظر تھیں ،پھر ارسلان نے اپنی امی کو واقع کی پوری تفصیلات بتائی۔ جس پر امی نے کیلے والے سے پوچھا تم نے اسے پہچانا کیسے تھا۔ اور تمہیں گھر کا پتہ کیوں کر معلوم تھا؟ کیلے والے نے کہا اس کے ’’سلام کرنے کی وجہ سے سب ہی اسے جانتے ہیں، یہ بہت نیک اور اچھا بچہ ہے یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا۔امی نے ارسلان سے کہا دیکھی سلام کی تاثیر۔