• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر رئیس احمد

خلاصہ یا تلخیص ادب کی ایک اہم صنف اور تحقیقی مقالے یا تحقیقی مضمون کی بنیاد ہوتا ہے۔ تحقیقی مضمون کےشروع میں اگر خلاصہ نہ ہو تو وہ تحقیقی مضمون کے زمرے میں نہیں آتا، اسی طرح تحقیقی مقالات کے ابتدا میں تحقیق کا خلاصہ دینا تحقیقی ضرورت ہے۔ ’خلاصہ، تبصرے سے مختلف ہوتا ہے۔ 

خلاصے میں مضمون یا دستاویز کی وسعت اور متن کا لب لباب مختصر یا تفصیلی بیان کیا جاتا ہے کہ قاری خلاصہ پڑھ کر یہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ اسے اب اصل دستاویز یا مضمون پڑھنا چاہئے یا نہیں تاہم خلاصہ اصل مضمون یا دستاویز کا نعم البدل ہر گز نہیں ہوتا البتہ فوری اور مختصر وقت میں معلومات فراہم کرنے سبب ضرور ہوتا ہے۔ 

عطش درانی کے خیال میں’’ تلخیص کسی عبارت کو کم از کم الفاظ میں اس طرح لکھنا کہ اس عبارت کا تاثر برقرار رہے اور کوئی بات محل نظر نہ ہو، تلخیص نگاری کہلاتی ہے‘‘۔ اس کے برعکس تبصرے میں کتاب کے مندرجات اور اسلوب بیان کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور مواد کے مثبت و منفی پہلوئوں کو اختصار سے بیان کیا جاتا ہے۔ تبصرہ قاری کو کتاب کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے اس کی بنیاد پر قاری اس دستاویز یا کتاب کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔

مغربی مصنف جنیفیرای رائولی نے اپنی کتاب ’خلاصہ نگاری اور اشاریہ سازی‘ میں خلاصہ کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’خلاصہ دستاویز کے متن کو مختصر اور صحیح طور پر اس انداز سے بیان کرنا کہ وہ اصل دستاویز معلوم ہو۔‘ گویا خلاصہ اس مختصر تحریر کو کہتے ہیں جو اصل مضمون یا مسودہ کا نچوڑ ہو یعنی کسی بھی دستاویز (مضمون یا مقالہ) کا نچوڑ یا حاصل خلاصہ کہلاتا ہے۔ 

جامعہ اللغات میں خلاصہ کے معنی ’اختصار، کسی چیز کا بہترین حصہ، نچوڑ، جوہر، نتیجہ، حاصل کے بیان کئے گئے ہیں۔ خلاصہ کی دو اقسام بیان کی گئی ہیں ایک’’ معلوماتی‘‘اور دوسری ’’بیانی یا وضاحتی‘‘۔ معلوماتی خلاصہ قاری کو ماخذ کے بارے میں اساسی اطلاعات فراہم کرتا ہے جب کہ بیانی یا وضاحتی خلاصہ پڑھ کر قاری اس نتیجے پر ہے کہ یہ ماخذ اس کے لئے مفید ہے اور مضمون یا کتاب کا مطالعہ اس کے لئے کارآمد ہوگا۔

خلاصہ نگاری کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟ اس کے بارے میں یقین سےکچھ نہیں کہا جا سکتا۔ خیال ہے کہ کتاب مٹی کی تختیوں، اور پھر کاغذ پر تیار کی گئی قلمی کتب کے سرورق پر کتاب کے بارے میں مختصر لکھنے کا رواج تھا یہی خلاصہ نگاری کی ابتدا تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ فن بھی بہتر سے بہتر صورت اختیار کرتا چلا گیا۔ 

انیسویں صدی کے آغاز میں علمی مواد برق رفتاری سے منظر عام پر آنا شروع ہوا تو مواد کے اس اشاعتی سیلاب نے محققین اور لکھنے والوں کے لئے مشکلات پیدا کر دیں کہ وہ اپنے مطلویہ موضوعات پر شائع شدہ مواد کے بارے میں کس طرح آگاہ ہوں۔ اس اشاعتی سیلاب پر قابو پانے کے لئے تحقیق و جستجو اور منصوبہ بندی کی گئی، چنانچہ کتابیات، اشاریہ جات کے ساتھ ساتھ خلاصہ نگاری کو ان مقاصد کے حصول کا ذریعہ سمجھتےہوئے خلاصہ نگاری کا رواج عام ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ 1803ء میں اولین خلاصہ بعنوانdiensts Chemischer Information'' ''شائع ہوا۔

اردو ادب میں خلاصہ نگاری، تبصرہ اور دیباچہ نگاری کے ساتھ ساتھ نظر آتی ہے۔ تصانیف پر اپنی رائے کا اظہار اس طرح کرنا کہ مصنف اپنی تصنیف کی اشاعت سے قبل از خود کسی ماہر فن سے درخواست گرے تو یہ عمل دیباچہ یا تقریظ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس طرح کے اظہاریئے میں کتاب پر تنقید نہیں ہوتی البتہ کتاب کو مزید بہتر بنانے کی کوئی تجویز ہو سکتی ہے۔ 

خلاصہ مصنف از خود تحریر کرتا ہے چنانچہ اس میں اختصار کے ساتھ اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اس میں کیا کچھ ہے، تبصرہ کتاب کی اشاعت کے بعد کوئی بھی کر سکتا ہے یہ ثنائی اور تنقیدی ہو سکتے ہیں۔ اردو ادب میں خلاصہ نگاری کا کوئی ماخذ تو نہیں ملتا البتہ بعض مصنفین نے منفرد انداز سے کتابوں پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، انہیں ہم خلاصہ نگاری کے زمرے میں شامل کر سکتے ہیں۔

خلاصہ کے بارے میں مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ:

خلاصہ قاری کا وقت بچاتا ہے

خلاصہ شائع شدہ مواد کا جائزہ پیش کرتا ہے۔

خلاصہ یا تخلیص طویل مضمون اور ضخیم تحقیقی مقالے کو اختصار سے بیان کرنے کا ذریعہ ہے۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ 

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی

تازہ ترین