…محمود شاہد…
وہ برسہا برس سے اپنے حجرہ میں بند تھا۔ اپنے حجرہ سے کم ہی باہر نکلتا تھا۔ اسے محلے کے لوگوں نے بھی کبھی کبھار ہی دیکھا تھا۔ کسی نے اسے دکان یا بازار میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ تقاریب یا سرگرمیوں میں بھی وہ شریک نہیں ہوتا تھا۔ شہر کے معاملات یا مسائل میں اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ شہر کے لوگ اسے اللہ والا سمجھ کر اس کے حجرہ کے دروازہ پر خوردونوش کی اشیا رکھ جاتے تھے۔ وہ رات کے کسی پہر آہستہ سے دروازہ کھول کر کھانے پینے کی چیزیں حجرہ کے اندر لے لیتا۔
تین دن گزر گئے تھے۔ روٹیاں، سالن، پھل وغیرہ اس کی دہلیز پر ہی رہ گئے تھے۔ لوگوں نے سمجھا شاید وہ ان کھانوں سے بیزار ہوگیا ہو۔ کسی نے کہا شاید وہ مراقبہ میں بیٹھا ہو۔ کسی نے کہا شاید وہ بیمار پڑ گیا ہو۔ کسی نےکہا شاید وہ خالق حقیقی سے جا ملا ہو۔ حجرہ کا دروازہ اندر سے بند تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ حجرہ کے روشن دان سے اندر دیکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
دیوار سے سیڑھی لگا کر روشن دان سےحجرہ کے اندر دیکھا گیا۔ وہ منہ کے بل فرش پر پڑا ہوا تھا۔ دروازہ توڑا گیا۔ وہ مر چکا تھا۔ اس کی میت کو گلاب کے پانی سے غسل دے کر شہر کے باہر ایک وسیع میدان میں دفن کیا گیا۔ پکی تربت بنائی گئی۔ تربت پر شاندار مقبرہ تعمیر کیا گیا۔ معتقدین اور زائرین کا میلہ سا لگ گیا۔ مقبرہ کے احاطے میں ایک تباہ حال اور نحیف پاگل رہتا تھا۔ جب بھی کوئی مزار کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے ہاتھ اوپر اٹھاتا وہ بھیانک انداز میں قہقہے لگانے لگتا۔ اس کی اس حرکت پر مجاور اسے دھکے مار کر باہر نکال دیتا۔ لیکن پاگل اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا تھا۔ وہ اپنے سر پر خاک اڑاتا پھر مقبرہ میں داخل ہوجاتا۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی