٭…بے باک یا بے باق؟
دونوں درست ہیں لیکن دونوں کا مفہوم الگ ہے۔ البتہ ا ن کے استعمال میں کبھی کبھی گڑبڑ ہوجاتی ہے اور اکثر بے باق کو بھی بے باک لکھ دیا جاتا ہے۔
باک فارسی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں خوف، ڈر، اندیشہ، جھجک، پروا۔ بے باک یعنی وہ جسے کوئی خوف یا پروا نہ ہو، جسے اندیشہ یا جھجک نہ ہو، جسے کوئی دھڑکا نہ ہو،بے خوف،بے دھڑک، دلیر۔جیسے : اس بے باک لڑکے نے بڑی جرأت سے ہر سوال کا جواب دیا۔ جبکہ باق کے بارے میں اردو لغت بورڈ کی لغت میں لکھا ہے کہ یہ عربی لفظ باقی کی تخفیف ہے ، گویا بے باق کا مطلب ہے جس میں کچھ باقی نہ ہو ۔جیسے : ہمارا آپ کا حساب بے باق ہوگیا( یعنی ساری رقم ادا ہوگئی اب کوئی حساب باقی نہیں رہا)۔
اس لیے بے باک اور بے باق کے استعمال میں احتیاط کرنی چاہیے۔
٭… فی امان ُاللہ نہیں ،فی امانِ اللہ
خدا حافظ یا اللہ حافظ کے مفہوم میں عربی میں ’’فی امانِ اللہ ‘‘ کی ترکیب اردو میں استعمال ہوتی ہے۔ لفظی مفہوم ہے اللہ کی امان میں( ’’فی ‘‘ کا لفظ عربی میں ’’میں ‘‘ کے معنی میں آتا ہے )۔لیکن اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگو ں کو فی امانِ اللہ میں نون کے نیچے زیر کی بجاے اس پرپیش بولتے سنا ہے، یعنی فی امانُ اللہ۔ یہ غلط ہے۔
دراصل عربی کا قاعدہ ہے کہ ’’فی‘‘ کے بعد آنے والے لفظ کے آخری حرف کے نیچے زیر لگ جاتا ہے ( ’’فی ‘‘ عربی میں ’’میں ‘‘ کے معنی میں ہے) ۔اس لیے’’ فی‘‘ کے بعد جب ’’امان ‘‘آئے گا تو امان کے نون کے نیچے زیر لگے گا۔گویا فی امانِ اللہ کہنا چاہیے۔ اس کی مثالیں قرآن پاک میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں ، مثلاً سورہ نصر کو دیکھ لیں جس میں ’’فی ‘‘کے بعد والے حرف ’’دِین ‘‘ کے نیچے زیر ہے اور اسے ـــ’’فی دِین ِاللہ ِ ‘‘ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔
اگرچہ ’’امانُ اللہ ‘‘(یعنی نون پر پیش کے ساتھ) بھی ایک ترکیب ہے اور اپنی جگہ درست ہے، لیکن جب ’’خدا حافظ ‘‘ یا ’’اللہ کی امان میں ‘‘ کہناچاہیں تو لفظ ’’فی ‘‘ کے بعد اس فقرے میں نون کے نیچے زیر پڑھنا چاہیے ، یعنی فی امان ِ اللہ۔ آج کے لیے اتنا کافی ہے؟ فی امان ِ اللہ۔
٭… فارغُ البال
بعض لوگ مذاق میں جس کے سر پر بال نہ ہوں یعنی جو گنجا ہو اسے فارغ البال کہتے ہیں لیکن فارغ البال کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے۔ مذاق کی بات اور ہے مگر اس ترکیب میں لفظ ’’بال ‘‘اردو کا بال نہیں ہے ۔ یعنی یہ وہ بال نہیں ہیں جو سر پر ہوتے ہیں اور جس سے گنجے لوگ بقول شخصے ’’فارغ ‘‘ ہوتے ہیں ، بلکہ یہ عربی کا بال ہے جس کے ایک معنی ہیں حال ،طور، حالت، کیفیت۔
جان رچرڈسن نے اپنی فارسی و عربی بہ انگریزی لغت میں اس کے ایک اور معنی بھی لکھے ہیں اور وہ ہیں بے چینی، پریشانی ۔گویا فارغ البال سے مراد ہے وہ شخص جسے فراغت کی حالت حاصل ہو، جسے کوئی فکر یا اندیشہ (مثلاً ملازمت یا کاروبار کی فکر، اولاد کی شادی کا خیال ، قرض کی ادائی کی پریشانی)لا حق نہ ہو۔عام طور پر لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد فارغ البالی کی زندگی گزارتے ہیں۔
یاد رہے کہ اردو اور عربی کے علاوہ ’’بال‘‘ فارسی میں بھی ایک لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں :بازو یا پَر۔مثلاً پرندے کا بازو یا پَرفارسی میں بال کہلاتا ہے۔ اقبال کی کتاب ’’بال ِ جبریل ‘‘ کے نام میں یہی فارسی کا ’’بال ‘‘ہے۔ اسی لیے شاعری میں ’’بال و پر‘‘ کی ترکیب بھی آتی ہے ۔لیکن عربی میں پرندے کے بازو یا پَر کو جَناح (جیم پر زبر)کہتے ہیں۔ اسی سے ذُوالجَناح کی ترکیب بنی ہے ، مطلب ہے بازو یا پَر والا۔