کراچی کے عوام نے پانی کے حصول کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت انتظام کیا ہوا تھا۔ بعض مخیر حضرات کے گھروں کے علاوہ لیاری ندی کے دونوں جانب کناروں پر چھوٹے چھوٹے کنویں تیار کیے تھے جن میں جمع ہونے والا پانی وہ استعمال میں لاتے، ان میں سے چند کنوئیں ایسے تھے جن میں بہترین یا صاف پانی دست یاب تھا۔
باقی کنویں خشک تھے یا ان میں خراب پانی تھا، مگر مکین مجبور تھےکہ اس خراب پانی ہی کو استعمال میں لائیں۔ وہ صدیوں سے ایسا ہی کر رہے تھے کوئی اور ذریعہ نہیں تھا جہاں سے پانی حاصل کیا جا سکے۔ 1944ء میں انگریزوں نے نئے شہرکی تعمیر کے لئے سڑکوں اور راستوں کی تعمیر شروع کی۔ انگریز اپنی فوج اور سول آبادی کو یہاں کی مقامی آبادی سے دوررکھنا چاہتے تھے، تاکہ انکو گندگی اورجراثیم سے محفوظ رکھا جا سکے۔
ان کو خطرہ تھا کہ مقامی آبادی کے ساتھ رہنے سےان کے فو جیوں کو جراثیم لگ سکتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے سول لائنز کو مقامی آبادی سے کئی میل دور آباد کیا، جو آج صدر میں کراچی کنٹونمنٹ کا علاقہ ہے۔ لہٰذا اس علاقے کو پورٹ سے منسلک کرنا ان کی پہلی ترجیح تھی۔
یہ اس وقت کی انگریز فوج کی چھائونی کے علاقے ہیں۔ فوجی و سول آبادی کو مقامی آباد ی سے جدا کرنے کے لئے باالفاظ دیگر حد فاصل کے طور پر لیاری ندی سے موجودہ اسٹیشن کوارٹر تک ایک راستہ تعمیر کیا گیا،جو آج کی ’’نیپیئر روڈ‘‘ ہے اور یہ شہر کراچی کی پہلی سڑک قرار پائی۔ نیپیئر اسی سڑک سے گزر کر بلوچستان اور کندہار جاتا تھا۔
اس مناسبت سے ابتدائی دنوں میں اس سڑک کا نام کندہار روڈ بھی رہا۔ اس کے ساتھ ہی فوجی چھائونی کو ملانے کے لئے 1844ء ہی میں دوسرا راستہ تعمیر ہوا جو چھائونی سے کسٹم ہائوس تک تھا۔ یہ ’’بندر روڈ‘‘ ہے اور آج ایم اے جناح روڈ کے نام سے جانا جاتاہے۔ اس کے ساتھ بندر روڈ کے متوازن ایک اور راستہ نکالا گیا جو گورنر ہائوس سے جونا بندر تک طویل تھا۔ یہ راستہ ٹاور پر جا کر بندر روڈ سے ملا جو ہیولاک روڈ اور میکلوڈ روڈ ہیں۔
اسی دوران انگریزوں نے کراچی میں اپنی سول اور فوجی آبادی کے لئے بہترین رہائشی کالونی قائم کر دی تھی جہاں سڑکیں اور دیگر سہولتوں کی فراہمی و دیگر منصوبے شروع کر کیے، مگر اس کے باوجود انگریز حکمران ایک شہر بنانے اور شہریوں کو وہ تمام شہری سہولتوں کی فراہمی کے لئے مشکلات کا شکار تھے جو ایک ترقی یافتہ شہر کے لئے لازمی ہیں۔ یعنی ان کو آبادی اور فوجیوں کے لئے مندرجہ ذیل سہولتوں کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا تھا۔
(1) صاف پانی کی فراہمی
(2) صفائی و صحت
(3) گندے پانی کی نکاسی جو گلیوں، محلوؒں میں کھڑا رہتا۔
(4) نئے مکانات اور سڑکوں کی تعمیر وغیرہ۔
گوکہ انگریز ان خدمات کی انجام دہی میں مخلص تھے جیسےکے بعد میں ہونے والے کاموں سے پتا لگا، مگر اصل مسئلہ کام شروع کرنے کے لئے وسائل کی کمی تھی۔ ایسٹ انڈیاکمپنی کی جانب سے برصغیر پر قائم کردہ حکومت کے پاس بھی اتنے وسائل نہیں تھے کہ وہ پورے ہندوستان کے مسائل فوری حل کرے اور صوبائی حکومتوں کے پاس تو اس وقت نہ وسائل تھے اور نہ اختیارات۔ ابھی رول آف بزنس بھی نہیں بنے تھے کہ صوبائی حکومتوں نےکیا کرنا تھا اور وفاق کی کیا ذمے داریاں ہوں گی۔
یہ انگریزوں کے سندھ پر قبضے کے ابتدائی سال ہیں جہاں ان کے پاس وسائل بھی بہت کم تھے اگر کچھ تھا بھی توفوجی ضروریات کے لئے جو جنگی یا ہنگامی صورت میں استعمال کیا جا سکتا تھا۔ ایسے حالات میں گورنر سندھ کے لئے یہ بہت مشکل تھا کہ وہ کسی نئے شہر کی تعمیر شروع کریں، جہاں ان کے اپنے رہنے کی رہائش نہ ہو اور بیٹھنے کے لئے دفتر۔ وہ شہریوں کی صاف پانی کیسے فراہم کرے جو خود اپنی فوج کو نہ دے سکتا ہو۔ ان حالات میں حکومت نے کراچی میں سرچارلس نیپیئر کی سرکردگی میں کام کا آغاز کیا جو دراصل کراچی کی نئی زندگی یا ترقی کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔