1843ء میں کراچی چند ہزار افراد پر مشتمل ایک چھوٹا سا گائوں تھا۔ جو میٹھا در اور کھارا در کے درمیان ایک قلعہ میں بند تھا۔ 1846ء میں گندگی کے باعث کراچی میں ہیضہ کی وباء پھیلی اورکئی ہزار افراد ہلاک ہوگئے۔ سر چارلس نیپیئر نے صفائی کی صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے 3اراکین پر مشتمل کنزروینسی بورڈ قائم کیا اور خود بورڈ کے چیئرمین ہوئے۔
٭ 1850ء میں انگریزوں نے آل انڈیا میونسپل ایکٹ نافذ کیا تو اس ایکٹ کے تحت پہلے میونسپل کمیشن اور 13؍اپریل 1853ء کو کراچی کنزروینسی بورڈ کو ترقی دے کر کراچی میونسپلٹی قائم کر دی گئی۔
1870میں لوکل سیلف گورنمنٹ کا قانون نافد ہوا جس کے تحت بلدیہ کراچی کی ذمے داریوں میں صفائی ستھرائی ، پانی سیوریج، سڑکوں کی تعمیر کے علاوہ صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی ذمے داریاں بھی سونپ دی گئیں۔ اس قانون کے تحت مالیہ وصولی و خرچ کرنے کا اختیار بلدیہ کراچی کو حاصل ہو گیا۔
٭1882ء میں ایک نیا قانون آیا جس کے تحت صحت و تعلیم بلدیہ سےواپس لیا گیا اور مالیہ وصول و خرچ کرنے کا اختیار بھی صوبوں کو واپس ہوگیا،البتہ پہلی مرتبہ 33فیصد افراد عوام کو منتخب کرنے کی اجازت دی گئی۔
٭ 1919ء میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1919ء نافد ہوا اس کے تحت بلدیہ کراچی کو پولیس کنٹرول اورعدالتی اختیارات حاصل ہوئے۔
٭1933ءمیں مونسپل گورنمنٹ کے ایکٹ کے تحت بلدیہ کراچی کو کراچی میونسپل کارپوریشن کا درجہ دیا گیا اور جمشید نصرو انجی کراچی کے پہلے میئر منتخب ہوئے۔ اس قانون کے تحت نوٹیفکیشن میں بلدیہ کراچی کے لئے ’’کارپوریشن آف دی سٹی آف کراچی‘‘ استعمال ہوا جو آج بھی مونوگرام میں لکھا ہوا ہے۔
٭1950ءمیں نیا میونسپل ایکٹ نافذ ہوا جو دراصل 1933ء کا ایکٹ ہی کا تبدیل شدہ نام تھا۔
٭ سابق صدر محمد ایوب خان مرحوم نے1959ء میں بنیادی جمہوریت کا آرڈی نینس مجریہ 1959ء جاری کیا جس کے تحت انتخابات ہوئے اور یہ ادارے صدر کے ریکٹرول کالج کے طور پر بھی کام کرتےرہے۔
٭ اس قانون کے تحت پہلے بلدیاتی انتخابات 1960ء میں ہوئے۔ 1965ء میں ان اداروں کو عدالتی اختیارات دیے گئے۔ 5سالہ منصوبہ بندی، بجٹ سازی اور انتظامی اختیارات بھی بلدیہ کراچی کو حاصل ہوئے اور شہر کے بااختیار ادارےکے طور پر کام کیا، تاہم اس دور میں سربراہ سرکاری افسر ہی رہا۔
٭ 1973میں اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ’’پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈی نینس‘‘ نافد کیا ،مگر اس کے تحت نہ انتخابات ہوئے اور نہ ہی اس پر عمل درآمد ہو سکا۔
٭ 1976ء میں بلدیہ کراچی کو میٹروپولیٹن کارپوریشن کا درجہ دیاگیا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بڑے عوامی جلسہ عام میں اس کا اعلان کیا جو لیاقت آباد سپر مارکیٹ کی افتتاحی تقریب تھی۔
٭1979ء میں ضیاء الحق نے بلدیاتی اداروں کا نیا قانون نافذ کیا۔ ’’سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈی نیس‘‘1979ءکے تحت انتخابات ہوئے۔
٭ 1987ء میں حکومت سندھ نے ایس ایل جی او میں تبدیلی کر کے چار زونل میونسپل کمیٹیاں قائم کیں۔
٭1995ء میں زونل میونسپل کمیٹیوں کو بلدیہ کراچی میں ضم کر دیا گیا۔
٭1997ء میں شہر میں دوبارہ دو سطحی نظام نافذ کیا گیا اور 5 ڈسٹرکٹ کمیٹیاں قائم ہوئیں۔
٭ 14؍اگست 2001ء کو اُس وقت کے صدر پرویز مشرف کوکل گورنمنٹ نظام کے تحت کے ڈی اے، ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز، ڈسٹرکٹ کونسل سمیت صوبے کے بہت سارے اداروں کو بلدیہ کراچی میں ضم کر کے اسے سٹی حکومت کا درجہ دیا گیا۔
٭2013ء میں سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ پاس ہوا۔