اسلام آباد (نمائندہ جنگ، ایجنسیاں، ٹی وی رپورٹ) مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ملاقات میں حکومت کیخلاف مشترکہ جدوجہد پر اتفاق کیا گیاہے۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ عوام کے مسائل چاہے مہنگائی یو یا کچھ اور ہم سب ان پر یکسو ہیں، حکومت ٹی ایل پی کیساتھ معاہدے کی تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش کرے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ صدر اور وزیراعظم تحریک طالبان پاکستان سے معاہدہ کرنے والے کون ہیں؟ معاہدے پارلیمنٹ کے بغیر قبول نہیں، مذاکرات پر کسی کو اعتماد میں لیا گیا نہ کوئی اتفاق رائے ہوا، پہلے بھی تنقید کی آج بھی کروں گا ،علاوہ ازیں جماعت اسلامی نے پنڈورا پیپرز میں شامل افراد کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا ہے کہ بی آر ٹی سمیت ہر اسکینڈل پر کارروائی چاہتے ہیں، امید ہے کہ سپریم کورٹ نتیجہ خیز کارروائی کریگی،عمران خان چاہتے ہیں الیکشن کمیشن اور نیب ان کی جیب میں آ جائیں۔
تفصیلات کے مطابق پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت تمام اپوزیشن نے حکومت کیخلاف مشترکہ احتجاج کا فیصلہ کیا ہے، تمام جماعتیں حکومت کو پارلیمان میں مل کر ٹف ٹائم دیں گی۔
شہباز شریف کی سربراہی میں اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ اجلاس انکے چیمبر میں منعقد ہوا۔
اجلاس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، رہنما یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، رضا ربانی، شہری رحمان، اے این پی کے رہنما امیر حیدر ہوتی، جے یو آئی کے رہنما سعد محمود شریک ہوئے۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ کل اپوزیشن جماعتوں کی مشترکہ پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس ہوگا، عوام کے مسائل چاہے مہنگائی یو یا کچھ اور ہم سب ان پر یکسو ہیں، احتساب کے نام پر جو زیادتی ہورہی ہے اس کے خلاف ہم سب پارلیمان میں اکٹھے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں شہباز شریف نے کہا کہ چاہے کوئی بھی معاملہ ہو وزیر اعظم کبھی آئے ہی نہیں، ان کا کردار انتہائی قابل مذمت ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ نالائق اور نااہل حکومت کو مل کر بھگائیں گے، جب سے پی ٹی آئی ایم ایف مسلط ہوئی ہے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور عوام پریشان ہیں، یہی اہم نقطہ ہے جس پر پوری اپوزیشن جمع ہوئی ہے، عوام کے مسائل کی خاطر چاہے وہ مہنگائی ہو یا ای وی ایم کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی کوشش یا سیاسی انتقام ہو، ہم اس کے خلاف پارلیمان کی حد تک متحد ہیں۔
انہوں ںے کہا کہ ہم سب مل کر عوام کے مسائل کو اٹھائینگے، حکومت کی ناکام پالیسیوں کو ایکسپوز کریں گے، ہماری پوری کوشش ہوگی کہ دھاندلی اور حکومت کی سیاسی انتقام کی سازش کو ناکام بنائیں۔
مولانا اسعد محمود نے کہا کہ عوام کے مسائل پر تمام اپوزیشن اکٹھی ہے، لوگ اعتماد رکھیں، ہم ان کے حقوق کی جنگ لڑیں گے۔
امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ پارلیمان کے اندر اپوزیشن زیادہ موثر نظر آئے گی، ای وی ایم کے ذریعے الیکشن کو چوری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس وقت سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی کا ہے۔بعد ازاں پارلیمنٹ ہائوس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے حکومت سے تحریک لبیک سے کیے گئے معاہدے کے بارے میں پارلیمنٹ کو آگاہ کرنیکا مطالبہ کیا ہے۔
صحافی نے تحریک لبیک سے کئے گئے معاہدے سے متعلق سوال کیا جسکا جواب دیتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ حکومت پارلیمنٹ میں آکر بتائے کہ کیا معاہدہ ہوا ہے، ہر چیز خفیہ ہے،کالعدم کا اسٹیٹس ختم کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں شہباز شریف نے کہا کہ اسکے بارے میں ہم مشاورت کے ساتھ بیان جاری کرینگے۔ علاوہ ازیں پارلیمنٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ صدر اور وزیراعظم تحریک طالبان سے بھیک مانگنے والے کون ہیں،مذاکرات پر کسی کو اعتماد میں لیا گیا نہ کوئی اتفاق رائے ہوا، پہلے بھی تنقید کی آج بھی کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ بریفنگ کے متعلق کوئی گفتگو نہیں کرونگا ،یہ ان کیمرہ اور آف دی ریکارڈ تھی،انہوں نے کہا کہ افغان پالیسی،ٹی ٹی پی سے مذاکرات اورٹی ایل پی سے معاہدے پر یکطرفہ فیصلے نہیں لئے جا سکتے۔
پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ان امور پر کوئی بھی پالیسی نہیں بنائی جا سکتی۔ کوئی بھی ایسی پالیسی جس کی منظوری پارلیمنٹ سے نہ لی گئی ہواسکی کوئی قانونی حیثیت نہیں، صدر، وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے متعلق بیانات پر انہوں نے پہلے بھی تنقید کی تھی اور وہ آج بھی تنقید کرینگے کیونکہ کسی کو آن بورڈ نہیں لیا گیا اور نہ کوئی اتفاق رائے پیدا کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ لوگ کون ہوتے ہیں جو ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی بھیک مانگیں اور یکطرفہ طور پر ان لوگوں سے مذاکرات کریں جنہوں نے ہمارے سپاہیوں، قومی قیادت اور اے پی ایس کے بچوں کو شہیدکیا ہے، ان امور پر پارلیمنٹ سے منظور کردہ پالیسی ہی بہتر اور قانونی ہو سکتی ہے ،مہنگائی کے مسئلے پر ساری اپوزیشن متحد ہے۔