دوپہرکا ایک بج رہا تھا، فون کی گھنٹی بجی میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سندھ کے وزیر اعلیٰ جسٹس غوث علی شاہ صاحب تھے، پوچھنے لگے ’’معین! آرام میں تو نہیں تھے۔‘‘ میں نے کہا، ’’نہیں سر! حکم کیجیے۔‘‘ کہنے لگے، ’’معین! کل دلیپ کمار صاحب پاکستان آرہے ہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا، ’’جی میں نے اخبار میں پڑھ لیا تھا۔‘‘ کہنے لگے، ’’کل آتے ہی وہ پہلے فاطمید فائونڈیشن جائیں گے، وہاں سے میری طرف آئیں گے، رات کا کھانا وہ وزیر اعلیٰ ہائوس میں کھائیں گے، تم اپنے کچھ فن کار دوستوں کے ساتھ مدعو ہو، جن کو چاہو بلالو، بس کچھ تقریریں ہوں گی پھر کھانا، کوئی شو وغیرہ نہیں ہے۔‘‘ میں نے ہامی بھرلی۔
انہوں نے کہا کہ ’’ابھی تھوڑی دیر میں تم سے کوئی سرکاری افسر رابطہ کرے گا۔‘‘ پھر انہوں نے میری خیریت دریافت کی۔ اس دوران مجھے اچانک ایک خیال آیا، میں نے شاہ صاحب سے کہا، ’’سر! ٹیلی ویژن پر میرا شو ’’یس سر نو سر‘‘ چل رہا ہے، میں چاہتا ہوں کہ اس کے لیے دلیپ صاحب کا ایک مختصر انٹرویو ریکارڈ کرلوں، اگر آپ تعاون کریں تو یہ ممکن ہوسکتا ہے۔‘‘ کہنے لگے، ’’بتائو کیا کرنا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’سر میں وزیر اعلیٰ ہاؤس کے کونے میں کیمرے کا انتظام کروادوں گا اور مناسب موقع ملتے ہی میں آپ کو مطلع کردوں گا،آپ اُن سے کہہ دیجیے گا، میں انٹرویو کرلوں گا۔‘‘ انہوں نے اس بات کی ہامی بھرلی۔ شاہ صاحب سے بات مکمل ہونے کے بعد میں نے قاسم جلالی کو فون کیا۔ وہ سو رہے تھے، میری اطلاع نے اُن کی نیند اڑادی۔
میں نے کہا، ’’جلالی! کل ہم اپنے شو کے لیے دلیپ صاحب کا انٹرویو کریں گے۔‘‘ جلالی سمجھے میں مذاق کررہا ہوں، کیوں کہ شام تک تو ہم دونوں کوشش میں تھے کہ کسی طرح ناظم جیوا سے بات ہوجائے اور کہاں چند گھنٹے بعد میں ان سے کہہ رہا تھا کہ ہم دلیپ صاحب کا انٹرویو کریں گے۔ میں نے جلالی کو پوری صورتِ حال سے آگاہ کیا وہ بہت خوش ہوئے، کیوں کہ وہ بھی دلیپ کمار کے اتنے ہی مداح ہیں، جتنا کوئی اور ہوسکتا ہے۔
ان سے بات کرنے کے بعد میں نے اپنے دوست گلوکار مجیب عالم کو فون پر بتایا کہ ’’کل ہم دلیپ کمار سے ملیں گے۔‘‘ اس پر ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور کہنے لگے، ’’نہیں یار! یہ تو کمال ہوجائے گا۔‘‘ پھر ان سے چند باتیں کرنے کے بعد میں نے فون بند کردیا۔ فون کی گھنٹی ایک بار پھر بجی، دوسری جانب چیف منسٹر کے پروٹوکول افسر لائن پر تھے، پوچھنے لگے ’’کون کون سے فن کار آئیں گے، ان کے نام اور گاڑی نمبر درکار ہوں گے۔‘‘ میں نے اُن سے وعدہ کرلیا کہ صبح تفصیل سے لکھوادوں گا۔
چوں کہ رات کافی بھیگ چکی تھی، تھکن اور خوشی کے جذبات مجھ پر غالب تھے، ایک ایسے فن کار سے ملنے کی آرزو پوری ہورہی تھی، جو زندگی کی بے شمار خواہشوں میں سے ایک تھی۔ میں نے پھر ٹیلی فون نمبرز کی ڈائری اٹھائی، فن کاروں کو کال کرنے میں مصروف ہوگیا، کیوں کہ فن کار راتوں کو دیر سے سوتے ہیں۔ سب سے پہلی کال میں نے ساحرہ کاظمی کو کی، جن کا میرے فنی کیریئر کو نیا رنگ دینے میں اہم کردار رہا ہے۔ ان کے ڈرامے ’’روزی‘‘ نے مجھے منفرد اداکاروں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ ساحرہ کو جب میں نے بتایا، تو وہ بہت خوش ہوئیں، لیکن وہ ممبئی میں دلیپ صاحب سے مل چکی تھیں۔ راحت اور ساحرہ کو دعوت دے کر میں نے شکیل، شفیع محمد شاہ، اسماعیل تارا اور زیبا شہناز کو بھی فون کیے، ان تمام افراد کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔
دلیپ صاحب کی لازوال مقبولیت کی وجہ سے ہر چھوٹا بڑا ان سے ملنے کا خواہش مند رہتا ہے۔ ان امور سے فارغ ہوکر میں بستر پر آرام کرنے چلا گیا۔ اور سوچنے لگا کہ دلیپ صاحب عام زندگی میں کیسے ہوں گے؟ ان سے کیا بات کرنی ہے؟ کیا سوالات پوچھوں گا؟ یہ سوچتے ہوئے نہ جانے کب آنکھ لگ گئی۔ دوسرے روز میں جلد ہی بیدار ہوگیا۔ آپ اسے بے چینی بھی کہہ سکتے ہیں یا انگریزی میں ایکسائٹمنٹ۔ جیسے ہی میں اُٹھا تو سب سے پہلے قاسم جلالی کا فون آیا کہ ’’انٹرویو کے سارے انتظامات ہوگئے ہیں۔ شام کے چھ بجے تک کیمرے لگ جائیں گے۔‘‘ میں نے اُن سے کہا کہ یہ سب کس طرح سے ہوگا۔ اسی اثناء میں وزیراعلیٰ ہائوس سے فون آگیا۔
چیف منسٹر صاحب کا پیغام تھا کہ میں وقت سے کم از کم ایک گھنٹہ قبل وزیر اعلیٰ ہائوس پہنچ جائوں، کیوں کہ وزیراعلیٰ مجھ سے انٹرویو سے پہلے کچھ میٹنگ کرنا چاہتے تھے۔ اس کے بعد میں نے تمام فن کاروں کو فون کر کے وقت پر آنے کی تاکید کی اور فوراً نہانے چلا گیا۔ شام کو میں حسبِ ہدایت تیار ہو کر وزیر اعلیٰ ہائوس پہنچ گیا۔ مجھے ایک کمرے میں لے جا کر بٹھایا گیا، مشروب پیش کیا گیا، اسی دوران جسٹس غوث علی شاہ کمرے میں تشریف لے آئے۔ حال احوال پوچھنے لگے، میں نے شکریے کے ساتھ خیریت عرض کردی تو وہ مجھے لے کر لان میں ٹہلنے لگے۔
میں نے پوچھا، ’’سر آپ نے مجھے جلد بلایا تھا، خیریت تو ہے۔‘‘ جواب میں انہوں نے کہا، ’’بھئی ہم تو سیاست دان ہیں، شوبزنس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ میں نے دلیپ صاحب کی کچھ فلمیں ضرور دیکھی ہیں، لیکن میں ان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا، ذرا ان کے متعلق بتائو۔‘‘ میں نے کہا ’’سر! دلیپ صاحب کا کیریئر تو نصف صدی پر محیط ہے، اتنا سب کچھ کہنا اور بتانا ممکن نہیں ہے۔ آپ یہاں سے شروع کیجیے گا کہ فلم ’’جوار بھاٹا‘‘ سے شکتی تک دلیپ صاحب کا سفر ایک Golden Era ہے، جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ یہ جان کر شاہ صاحب بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ ’’تم نے تو دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔‘‘ پھر اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ میں اور چیف منسٹر کافی دیر لان میں ٹہلتے رہے۔
کچھ دیر بعد وہ تیار ہونے چلے گئے۔ اسی دوران پروٹوکول افسر نے مجھے قاسم جلالی کی آمد کی اطلاع دی اور پھر میں پُوری ٹیم کو لے کر اس جگہ گیا، جہاں مجھے دلیپ صاحب کا انٹرویو ریکارڈ کرنا تھا۔ میں نے اور جلالی نے سارے انتظامات مکمل کرکے گویا اطمینان کا سانس لیا۔ ہم وزیر اعلیٰ ہائوس کے ایک کونے میں جاکر آرام سے بیٹھ گئے، جو ایک طرح سے مہمانوں کی انتظار گاہ بھی تھی۔ ڈائریکٹر پروٹوکول سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ اس کمرے میں آرٹسٹوں کے علاوہ کسی اور کو نہ آنے دیں۔ پھر سارے مہمان آگئے، گاڑیوں کے سائرن بجنا شروع ہوگئے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ مہمانِ گراں قدر دلیپ کمار صاحب تشریف لے آئے ہیں۔ اس موقع پر تمام افراد اُن کی جانب بے تابی سے بڑھے۔ نہ جانے کیوں مجھے اس وقت یہ شعر یاد آگیا ؎
وہ تھے جدھر سب لوگ اُدھر دیکھ رہے تھے
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے تھے
میرے سامنے دنیائے فلم کا بے تاج بادشاہ اپنی خوب صورت مسکان کے ساتھ جلوہ افروز تھا۔ میں قدرت کے بنائے ہوئے اس شاہ کار میں کھو گیا ’’جوار بھاٹا‘‘، ’’سنگدل‘‘، ’’دل دیا درد لیا‘‘، ’’لیڈر‘‘، ’’پیغام‘‘، ’’دیدار‘‘، ’’انداز‘‘، ’’ترانہ‘‘، ’’گنگا جمنا‘‘، ’’رام اور شیام‘‘، ’’مشعل‘‘، ’’دنیا‘‘، ’’سگینہ مہاتو‘‘، ’’کرما‘‘، ’’دھرم ادھیکاری‘‘، ’’بابل‘‘ اور نہ جانے کتنی لازوال فلمیں ذہن میں آنے لگیں، ہر فلم میں ایک سے بڑھ کر ایک کردار، جو کبھی کبھی حقیقت کو بھی شرما دے، وہ چاہے ’’گنگا جمنا‘‘ کا ایک سیدھا سادہ سا دیہاتی ہو یا ’’دیوداس‘‘ کا وہ دِل جلا جو اپنے آپ کو شراب میں غرق کردیتا ہے یا فلم ’’مزدور‘‘ کا لیبر لیڈر یا ’’سگینہ مہاتو‘‘ بنگال کے لوگوں کا مسیحا یا ’’مغل اعظم‘‘ کا شہزادہ سلیم اور ایسے ہی اَن گنت زندہ جاوید کرداروں کو اپنی اداکارانہ صلاحیتوں سے زندگی بخشنے والا عظیم اداکار میرے سامنے تھا، میں بغیر کچھ کہے ہوئے ان کی طرف دیکھے جارہا تھا اور یہ سوچ کر تو میرے دل کی دھڑکن سوا ہوگئی کہ کچھ دیر بعد ان سے بات کرنے والا ہوں۔ دلیپ صاحب اپنی شریکِ حیات سائرہ بانو صاحبہ کے ہم راہ وزیر اعلیٰ سندھ کے ساتھ صوفے پر براجمان ہوئے۔
ترتیب یہ تھی کہ دلیپ صاحب، سائرہ بانو اور وزیر اعلیٰ کی نشستوں کا انتظام مہمانوں سے تھوڑی دُور کیا گیا تھا اور طریقہ کار یہ تھا کہ مہمان باری باری اٹھ کر آتے اور دلیپ صاحب اور سائرہ بھابھی سے ملاقات کرتے، لیکن جو ہمارا طریقہ رہا ہے کہ ملاقات میں کسی طرح پہل ہوجائے۔ اس لیے دلیپ صاحب کی نشست کے آگے ایک بھیڑ سی لگ گئی، لیکن دلیپ صاحب ان ساری چیزوں سے بے نیاز ہر ایک سے بڑی خندہ پیشانی سے مل رہے تھے۔ فوٹو گرافرز کی چاندی تھی، دھڑا دھڑ تصویریں لی جارہی تھیں اور ہر کوئی تصویر اتروا کر فوٹو گرافر سے نام اور پتا پوچھ رہا تھا، تاکہ یادگار تصویر حاصل کی جائے۔
فوٹو گرافرز کو بھی اس بات کا تجربہ تھا، اس لیے ڈھیر سارے وزیٹنگ کارڈ جو ان کی جیبوں میں رکھے ہوئے تھے، بار بار نکال کر لوگوں کو دے رہے تھے۔ میں بھی قاسم جلالی کے ساتھ آرٹسٹوں کے لیے جو ٹیبل مخصوص تھی، اس پر جا بیٹھا، چوں کہ ہماری میز ابتدائی نشستوں میں تھی، اس لیے ہر مہمان کو ہماری ٹیبل سے گزر کر دلیپ صاحب تک جانا پڑتا تھا۔ اس لیے مہمان ہم سب سے بھی ہاتھ ملا کر جاتے۔ فن کاروں میں نیّر سلطانہ، ساحرہ کاظمی، راحت کاظمی، شفیع محمد شاہ، اسماعیل تارا، زیبا شہناز اور دیگر شامل تھے۔ اب میں اُس لمحے کا منتظر تھا کہ وزیراعلیٰ کب مجھے اشارہ کریں اور میں جا کر تمام فن کاروں کا دلیپ صاحب سے تعارف کروائوں۔
یہ بات شاہ صاحب سے طے ہوگئی تھی کہ وہ مجھے بلائیں گے اور دلیپ صاحب سے میرا باقاعدہ تعارف کروائیں گے۔ جب ذرا مہمانوں کی بھیڑ کم ہوئی تو میں نے اپنی نگاہیں شاہ صاحب پر مرکوز کردیں کہ مبادا وہ بھول نہ جائیں۔ لیکن جو لوگ اتنے بڑے عہدے پر فائز ہوتے ہیں، وہ بلا کے ذہین بھی ہوتے ہیں۔ جیسے ہی شاہ صاحب کی نظریں مجھ سے چار ہوئیں، انہوں نے مجھے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا، میں تو گویا اس اشارے کا بے صبری سے منتظر تھا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا اور ہم سب دلیپ صاحب سے ملاقات کے لیے گویا مشینی انداز میں چل پڑے۔ جب میں اور سارے آرٹسٹ دلیپ صاحب کی طرف جارہے تھے، اسی دوران شاہ صاحب شاید میرا تعارف دلیپ صاحب سے کرواچکے تھے۔
میں نے جا کر ان سے ہاتھ ملایا، وہ بڑے تپاک سے ملے اور کہنے لگے، ’’آپ کی بڑی تعریف سنی ہے۔‘‘ میں اس ستایش پر پھولا نہیں سما رہا تھا۔ پھر میں نے تمام فن کاروں کا تعارف دلیپ صاحب اور سائرہ بھابھی سے کروایا۔ اس کے بعد ہمارا ایک گروپ فوٹو بنایا گیا اور ہم لوٹ کر اپنی ٹیبل پر آگئے۔ دلیپ صاحب کی شخصیت میں نہ جانے کیا جادو ہے کہ وہ جس محفل میں موجود ہوتے ہیں، دیکھنے والوں کی ان پر سے نظر نہیں ہٹتی اور یہی حال ان کی فلموں کا بھی ہے۔ جس فلم میں وہ جلوہ گر ہوتے ہیں، ساتھ میں چاہے کوئی بھی اداکار ہو، لیکن نگاہیں دلیپ صاحب سے ہٹتی ہی نہیں، جانتے ہیں کیوں...؟
کیوں کہ جتنی دیر آپ کسی اور کو دیکھنے میں لگائیں گے، اس دوران دلیپ صاحب کے کئی ایکسپریشن آپ Miss کردیں گے۔ اگر یقین نہ ہو تو ان کی کوئی فلم منگوا کر دیکھ لیں، آپ مجھے سچا پائیں گے۔ اداکاری میں بیل بوٹے لگانے کا فن میں نے دلیپ صاحب کے علاوہ کسی میں نہیں دیکھا۔ وہ کردار نگاری کی اتنی باریکی میں ڈوب جاتے ہیں کہ حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔ آنکھوں سے گفتگو کرنے کے ہُنر کے بارے میں سُنا تھا، لیکن کسی کی آنکھوں کو پردۂ سیمیں پر گفتگو کرتے ہوئے دیکھا نہیں تھا۔
دلیپ صاحب ہی برصغیر کے وہ واحد اداکار ہیں، جن کی آنکھیں بھی باتیں کرتی ہیں۔ جذبات چاہے کرب کے ہوں یا خوشی کے، حیرت کے ہوں یا خوف کے، دلیپ صاحب بعض فلمی مناظر میں اپنی آنکھوں سے یہ سب بغیر کسی مکالمے کے بیان کرتے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں اُتر جاتے ہیں۔ میری ان تمام باتوں کی گواہی کے لیے صرف دلیپ صاحب کی فلم ’’رام اور شیام‘‘ ہی کافی ہوگی۔ میں دلیپ صاحب کو دیکھے جارہا تھا اور یہی سب کچھ سوچے جارہا تھا۔ اچانک قاسم جلالی کی آواز نے میری سوچ کو توڑ دیا۔ وہ کہہ رہے تھے، ’’یوسف بھائی (جلالی دلیپ کمار سے عقیدت کی بناء پر مجھے ان کے اصلی نام یوسف سے پکارتے ہیں) انٹرویو کرلو۔ اس سے پہلے کہ یہ (دلیپ کمار) چلے جائیں۔‘‘ میں نے مسکرا کر جلالی کو اطمینان دلایا کہ فکر مت کرو، ایسا نہیں ہوگا۔ اب مجھے اس لمحے کا انتظار تھا کہ وزیراعلیٰ مجھے اشارہ کریں اور میں دلیپ صاحب سے انٹرویو کا آغاز کروں۔
وقت گزرتا جارہا تھا، کھانے کا اعلان ہونے والا تھا، مجھے ابھی تک وزیراعلیٰ نے اشارہ نہیں کیا تھا، حالاں کہ میں مستقل ان ہی کی طرف دیکھے جارہا تھا۔ اچانک شاہ صاحب نے میری طرف ہاتھ اٹھایا، جیسے مجھے بلا رہے ہوں، میں برق رفتاری سے ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے دلیپ صاحب کو ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور وزیر اعلیٰ ہائوس کے اس حصّے کی طرف چل پڑے، جہاں ہم نے کیمرے نصب کیے تھے۔ میں اور جلالی ان کے پیچھے پیچھے تھے کہ اچانک جسٹس صاحب رُکے اور مجھے آگے آنے کا اشارہ کیا، میں تیز قدموں سے شاہ صاحب اور دلیپ صاحب کے درمیان پہنچ گیا۔
ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے شاہ صاحب میری کافی تعریف کرچکے۔ دلیپ صاحب نے مسکراتے ہوئے مجھے کہا کہ ’’لیجیے انٹرویو آپ کو کون روک سکتا ہے۔‘‘ میں نے جلالی صاحب کا ایک بار پھر تعارف کروایا اور انٹرویو کی ابتدا ہوئی۔ میرا پہلا سوال تھا ’’دلیپ کمار صاحب! آپ پہلی مرتبہ پاکستان آئے ہیں، کیا کبھی ہماری فضائی حدود سے گزرتے ہوئے آپ کو پاکستان کی یاد نہیں آئی؟ یہاں سے گزرتے ہوئے آپ کے کیا جذبات ہوتے تھے؟‘‘ جواب میں انہوں نے مسکراتے ہوئے صرف اتنا کہا، ’’سنیے! جو لوگ گزر جاتے ہیں تو بس گزر جاتے ہیں۔‘‘ انٹرویو کافی طویل تھا اور جوابات بھی دلیپ صاحب نے بہت سوچ سمجھ کر دیے۔
وہ بہ یک وقت سیاست دان، ممبئی کے شیرف، کئی خیراتی اداروں کے سرپرست، وہ جواب سوچ سمجھ کر نہیں دیں گے تو کیا کوئی اور دے گا۔ اسی اثناء میں ڈنر شروع ہوگیا۔ کھانے کے دوران بھی میں اِکا دُکا لوگوں کو دلیپ صاحب سے ملوانے لے جاتا، جن سے وہ بہت اچھی طرح ملتے۔ کھانے کے دوران ہی وزیر اعلیٰ صاحب نے مجھے ایک رقعہ بھیجا، جس میں لکھا تھا کہ ’’معین! تمہارے کافی ساتھی موجود ہیں، کچھ انٹرٹینمنٹ ہوجائے۔‘‘ میں نے ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسماعیل تارا اور زیبا شہناز سے ایک خاکہ پیش کرنے کی درخواست کی۔
خاکے سے شرکائے تقریب بہت محظوظ ہوئے، جس کا اظہار انہوں نے زبردست تالیوں سے گونج سے کیا۔ میں دلیپ صاحب کے بارے میں تعریفی کلمات کہنے لگا، جسے وہ بہت غور سے سُن رہے تھے اور میں نے بھی تہیہ کرلیا تھا کہ جب تک دلیپ صاحب میری کسی بات پر خوش ہو کر تالی نہیں بجائیں گے، بولتا رہوں گا اور میں اپنے مقصد میں کام یاب ہوگیا، جب میں نے کہا لفظ Actor میں پانچ Alphabets ہوتے ہیں۔
A--For Accuracy
C-- For Continuity
T-- For Tone
O-- For Oration
R-- For Rythm
میں نے کہا ان پانچ خوبیوں والے انسان کو صحیح معنوں میں اداکار کہا جاسکتا ہے اور یہ ساری خوبیاں برصغیر میں صرف دلیپ کمار صاحب کی شخصیت میں پائی جاتی ہیں۔ یہ سنتے ہی سائرہ بھابھی سمیت تمام حاضرین نے خُوب تالیاں بجائیں۔ پھر میں دلیپ صاحب کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ وہ میری طرف جھک کر بولے، ’’جیتے رہیے معین میاں! آپ بہت اچھا بولتے ہیں۔‘‘ اس پر میں بہت خوش ہوا، میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ کھانا ختم ہوا چاہتا تھا میں نے محسوس کیا کہ دلیپ صاحب جانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے ایک مصروف دن گزارا تھا، بالآخر انہوں نے وزیر اعلیٰ سے اجازت طلب کی۔
دلیپ صاحب اور بھابھی کے ساتھ شاہ صاحب بھی اٹھے، دلیپ صاحب نے مہمانوں کو ہاتھ ہلا کر الوداع کہا اور پھر وہ گاڑی کی طرف روانہ ہوگئے، زیادہ تر مہمان دلیپ صاحب کو رخصت کرنے گیٹ تک آئے۔ جاتے جاتے میں نے بھی ہاتھ ملا کر خدا حافظ کہا تو وہ کہنے لگے، ’’ملاقات ہونی چاہیے۔‘‘ یوں انہوں نے بڑے باوقار انداز میں گویا مجھے آگاہ کردیا کہ میں ان کو اچھا لگا۔ گاڑیوں کے سائرن بج اٹھے اور وہ اپنے بے شمار چاہنے والوں کو چھوڑ کر ہوٹل رخصت ہوگئے۔