ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے افراد بھی اب تعلیم حاصل کر کے اپنی شناخت کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ملتان کے ایک اور ٹرانس جینڈر نے کامرس میں ایم فل کی ڈگری مکمل کر لی۔
ملتان کی بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے شعبۂ کامرس سے حال ہی میں ایم فل کی ڈگری حاصل کرنے والی سارو عمران ٹرانس جینڈر ہیں۔
سارو نے اپنی شناخت پر معاشرتی تلخیوں کا سامنا ہمت سے کیا اور پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھا۔
سارو کے ایم فل کے ریسرچ پیپر کا موضوع ’پاکستان میں ٹرانس جینڈر کس طرح کاروبار شروع کریں، کاروبار کو فروغ دینے کے مقاصد اور چیلنجز‘ تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ میں چاہتی ہوں کہ پاکستان میں موجود خواجہ سراء کمیونٹی پڑھ لکھ کر آگے آئے، اپنی جابز یا بزنس کریں اور پاکستان کی اکانومی میں کردار ادا کریں۔
سارو اس وقت اپنی ہی کمیونٹی کے لوگوں کی صحت پر کام کرنے والی ایک سماجی تنظیم میں بطور کمیونیکیشن آفیسر خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔
وہ سمجھتی ہیں کہ آج وہ جس مقام پر ہیں اس میں ان کے خاندان کی حوصلہ افزائی شامل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اگر فیملی قبول کر رہی ہے تو آس پاس کے رشتے دار اور لوگ قبول نہیں کرنے دیتے، یہ مسئلہ میرے ساتھ اور ہر ٹرانس جینڈر کو رہے گا۔
سارو ٹرانس جینڈرز کے لیے تو رول ماڈل بن گئی ہیں لیکن اس کمیونٹی کے کئی افراد کہتے ہیں کہ معاشرتی رویوں کے باعث وہ نہ تو تعلیم جاری رکھ سکے اور نہ ہی انہیں بہتر روزگار ملا۔