اسلام آباد (فاروق اقدس/نامہ نگار خصوصی) مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ اسلام آباد میں بلاول بھٹو کی آمد کو اس وقت تو ایسے حالات کی متقاضی قرار دیا جارہا ہے جو خود حکومت کی کمزوری کے باعث پیدا ہوئے ہیں۔
اسی لئے دونوں ناراض رہنمائوں کے درمیان اس ملاقات کو حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس موخر کئے جانے کے تناظر کی صورتحال میں دیکھا جارہا ہے جبکہ اس ملاقات کے عوامل اور محرکات میں قومی اسمبلی میں دو مرتبہ حکومتی شکست بھی شامل ہے۔
یاد رہے کہ بلاول بھٹو کی آمد سے قبل خورشید شاہ نےاپنی پارٹی کی پی ڈی ایم میں واپسی کو اہم اور اس ضمن میں کردار ادا کرنے کا بھی عندیہ دیا تھا جبکہ اسلام آباد میں انہوں نے شہباز شریف سے بھی ملاقات کی۔
تاہم بنتے ہوئے نئے سیاسی منظر میں اس وقت شہباز شریف کا منظر پر موجود نہ ہونا ایک سوالیہ نشان ہے حالانکہ لاہور سے روانگی کے موقعہ پر اسلام آباد میں ان کے قیام کا پروگرام دس روز کا تھا۔
خبروں کے مطابق شہباز شریف ناسازی طبع کے باعث لاہور چلے گئے ہیں جس کے بعد بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان کی ملاقات ہوئی گوکہ اس ملاقات کا ماحول خورشید شاہ نے بنایا تھا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ملاقات میں یوسف رضا گیلانی اور قمرالزمان کائرہ موجود تھے۔
یاد رہے کہ قمر زمان کائرہ نے دو روز قبل ہی ایک پریس کانفرنس کرکے پی ڈی ایم کو آڑے ہاتھوں لیا تھا ، مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو کے درمیان باضابطہ ملاقات تقریباً سات ماہ بعد ہوئی ہے۔
طویل عرصے بعد دونوں رہنمائوں کی غیر متوقع ملاقات کی طرح انکی پریس کانفرنس ’’ خبریت کے فقدان‘‘ کے باعث غیر متوقع تھی کیونکہ حکومت اور دیگر سیاسی حلقوں کی طرح میڈیا بھی اس پریس کانفرنس کے حوالے سے خاصی پیشگوئیاں کر چکا تھا اور یہ قیاس ظاہر کیا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے پی ڈی ایم میں واپسی کا اعلان یقینی ہوسکتا ہے لیکن ایک طرف تو مولانا فضل الرحمان نے اس حوالے سے کئے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بلاول بھٹو سے تمام امور پر بات چیت نہیں ہوئی جبکہ دوسری طرف بلاول بھٹو نے بھی واضح کہا کہ ملاقات میں پی ڈی ایم کے بارے سرے سے کوئی بات ہوئی ہی نہیں، لیکن دانندگان راز کا قیاس ہے کہ دونوں رہنمائوں کا یہ طرز عمل اپنے کارڈز سینے سے لگا کر کھیلنے کی حکمت عملی بھی ہوسکتی ہے جسے مطلوبہ موقعہ پر ہی شو کیا جائے گا۔
بہرحال اس ملاقات سے یہ بات واضح ہے کہ حکومت کی جانب سے جب بھی مشترکہ اجلاس بلایا جائے گا انتخابی اصلاحات پر حکومت مخالف جماعتوں کے موقف میں تبدیلی نہیں ہوگی۔
دوسری طرف حکومت بھی اس ساری صورتحال میں آنے والے حالات سے نبردآزما ہونے کیلئے پوری طرح متحرک ہے اور ان اطلاعات سے بھی پوری طرح باخبر ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے اگلا مرحلہ عدم اعتماد کی تحریکوں کا ہے اور ضروری نہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں ہی پیش کیا جائے گی بلکہ اس کا آغاز مرحلہ وار بھی ہوسکتا ہے۔