• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

بڑی مشکل سے

اپنی تحریر کی اشاعت کے لیے ہم آپ کے تہہ دل سے شُکر گزار و ممنون ہیں۔ عیدالفطر کے شمارے پر تبصرہ اور اسے ڈھونڈنے کی رُوداد ہم نے اس لیے لکھی کہ وہ شمارہ (عیدالفطر ایڈیشن) ہمارے میاں بڑی مشکل سے ڈھونڈ کر لائے تھے۔ خیر، اس قدر تاخیر سے تبصرہ بھیجنے پر معذرت۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)

ج: کوئی بات نہیں، شوہروں کی ایسی مشقّت، اک طرح کی ’’تجدیدِ محبت‘‘ ہی ہوتی ہے۔ جواباً آپ بھی کوئی خدمت انجام دے لیتیں۔ البتہ قارئین کے لیے سرسری تذکرہ ہی کافی رہتا، نہ کہ اتنی تاخیر کے بعد اس قدر تفصیلی تبصرہ۔

ایک شکایت ہے

مَیں 12سال کی عُمر کا تھا، جب اتوار کے روز لاہور کے بازار انارکلی میں روزنامہ جنگ کا گھنٹوں انتظارکرتا تھا۔ اُس وقت لاہور میں جنگ اخبار کراچی سے آتا تھا۔ آپ سے شکایت ہے کہ مَیں نے ایک بالکل سچّا واقعہ لکھ کر تین چار سال پہلے ناقابلِ فراموش کے لیےبھیجا، لیکن وہ یا تو محکمہ ڈاک کی کوتاہی کی وجہ سے آپ کے دفتر نہ پہنچ سکا یا ردّی ٹوکری کی زینت بن گیا۔ اب آخری مرتبہ وہ آپ کی وساطت سے پھر بھیج رہا ہوں۔ اُمید ہے شایع فرما دیں گی۔ نوٹ: اب مَیں صرف اتوار کے دن اخبار لیتا ہوں اور پورا ہفتہ اُسی کو پڑھتا رہتا ہوں۔ (بہت پرانا قاری، صادق حسن، لاہور)

ج: کسی بھی تحریر کی اشاعت کے لیے اخبار کا پرانا قاری ہونا لازم نہیں، خود تحریر کا قابلِ اشاعت ہونا ضروری ہے۔ آپ کی تحریر معیاری ہوئی، تو شامل ہو جائے گی۔ 3-4سال قبل ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کا صفحہ رعنا فاروقی صاحبہ کرتی تھیں اور تب ناقابلِ اشاعت کی فہرست مرتّب نہیں ہوتی تھی۔ اب آپ کو اپنی تحریر سے متعلق جلد ہی پتا لگ جائے گا۔

پڑھنے سے تعلق رکھتا تھا

سنڈے میگزین کے آغاز ہی میں عالمی افق پر منور مرزا بہت خُوب صُورت تحریر کے ساتھ موجود تھے۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ میں فاروق اقدس قسط وار بہت ہی خُوب صُورت یادیں یک جا کر رہے ہیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں نجم الحسن عطا کی تحریر پڑھ کر پتا چلا کہ دنیا 98 فی صد آلودہ ہو چکی ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں رئوف ظفر نے معروف کارڈیالوجسٹ، ڈاکٹر گوہر سعید سے مفیدملاقات کی۔ ’’ناول‘‘ اچھا لگ رہا ہے، پڑھنے کے بعد مزہ آیا۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں وحید زہیر نے سردار عطا اللہ مینگل پر بہت خُوب صُورت مضمون باندھا، یادگار تصویر کا بھی جواب نہیں تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ اچھا لگا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ایک ہی واقعہ تھا۔ مگرپڑھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ ’’نئی کتابیں سلسلے میں اختر سعیدی کے خُوب صُورت تبصروں کا جواب نہیں۔ آپ کا صفحہ میں ظفر احسان کا خط بہت اچھا لگا، پڑھ کے مزہ آیا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

انگور کھٹّے ہیں؟

شمارہ ہمارے سامنے ہے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں شبّیر غوری نے 11ستمبر کےحوالے سے قائداعظم کی خُوب صُورت یادیں تازہ کیں۔ سمیرا غزل نے بھی ’’آزادی بمقابلہ غلامی‘‘ کےعنوان سےعمدہ مضمون لکھا۔ م۔ح سحاب نے 1965ء کے غازیوں، شہیدوں کوخراجِ تحسین و عقیدت پیش کیا۔’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں شفق رفیع دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کے تاثرات بیان کر رہی تھیں۔ میجر عامر کی ’’گفتگو،، کمال تھی۔ فاروق اقدس اور منور مرزا نےحالات و واقعات بیان کیے۔ اداکارہ ثنا عسکری نے کہا کہ ’’سب سے بور کام برتن دھونا لگتا ہے‘‘ سچّی سچّی باتیں پڑھ کے مزہ آیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں وادئ مہران کے پیڑے پڑھ کر آگےبڑھ گئے کہ ’’انگور کھٹّے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کا افسانہ اچھا لگا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں خادم ملک کےخطوط اور آپ کے جوابات کا تو کوئی مول ہی نہ تھا۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی کراچی)

ج:وادئ مہران کے پیڑے ہیں یا کوہ قاف کے؟ ’’انگور کھٹّے ہیں‘‘ کی مثال کچھ پلّے نہیں پڑی۔

آنسوؤں کی برکھا

محکم وسیلے سے آنسوئوں کی آب شاروں میں، دعائوں کی بہتی رو اور ایک دھماکے دار ’’شکریے‘‘ اور ادنیٰ سی مستعدی کے ساتھ ایک بار پھر آپ کا صفحہ میں حاضر ہوں۔ 5 ستمبر کے میگزین کو ہاتھوں ہاتھ لیا، تو آنکھیں پَھٹی کی پَھٹی رہ گئیں۔ بےاختیار آنکھوں سے آنسوئوں کی برکھا برس پڑی۔ میری پہلی خلوص بھری کاوش کو ’’سنڈے میگزین‘‘ کے صفحات پر نہایت نفاست کے ساتھ بکھیر دیا گیا تھا۔ غریقِ قلب سے ممنون ہوں کہ میری پہلی ادنیٰ سی کاوش کو(جو کسی بھی جریدے میں پہلی بار کی گئی) میگزین کے ماتھے کا جھومر بنا دیا گیا۔ چلتے ہیں رواں دواں تبصرے کی جانب، شبّیر غوری، سمیرا غزل کا حرف حرف، لفظ لفظ ہمیں اس دوراہے پر لےگیا، جہاں کروڑوں مسلمانوں کے بہتے خون سے زمین سُرخ ہوئی اور پھر ایک عظیم لیڈر کی بدولت ہمیں آزاد فضائوں میں سانس لینے کا حق ملا۔ م۔ ح سحاب اور شفق رفیع نے جاں بازوں کا تذکرہ چھیڑا۔ منور مرزا اور فاروق اقدس کی نوک پلک صحیح طرح نہ جم سکی۔ ماڈل کی ماڈلنگ سے بھی طبیعت بوجھل سی ہوئی۔ ثناء عسکری کا انٹرویو نظر آیا، مگر ادھورا چھوڑ کر محمود میاں کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے۔ پیارا گھر کی کڑاکے دار تراکیب کی خوشبوئوں نے گھیرے میں لے لیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی ہنستی مسکراتی اُڑان میں ڈاکٹراحمد رانجھا اور علی راشد رانا نے یکے بعد دیگرے اپنی طرف متوجّہ کیا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ذرا مسکراہٹ کے ساتھ نامے اور نامی پر نظر دوڑائی تو دل بے اختیار کہہ اُٹھا کہ بےشک نازلی فیصل، رونق افروز، راجا سلیم، ڈاکٹر محمّد حمزہ خان، چاچا چھکّن (اکثر غائب رہتے ہیں) گلریز احمد، امّ حبیبہ نور، قرأت نقوی، افشاں حسن، اسماء خان، سائرہ ناز اور دیگر صاحبان کی حیات کے رابطے سنڈے میگزین ہی سے تو قائم و دائم ہیں۔ اے اللہ! ان کو اپنی رحمتوں سے سدا شادو آباد رکھنا۔ آمین۔ (راجہ افنان احمد)

ج: آپ اور امّ حبیبہ نور یا تو ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں یا آپ دونوں سگے بہن بھائی ہیں۔ ایک سا لکھنے کا انداز، ایک سی ہینڈ رائٹنگ اور دونوں کےشہروں کے نام غائب۔ خطوط بھی ساتھ ساتھ وصول پاتےہیں۔ اورپھردونوں تحریروں میں لایعنی الفاظ کا جابجا استعمال بھی۔ اس بار آپ کے کچھ جملے تو ہم نے ارادتاً درست نہیں کیے کہ کچھ تو قارئین کو بھی اندازہ ہو کہ یہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ مرتّب کرنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں، اِک آگ کا دریا ہے۔

تحریروں کے اثرات

جنگ، سنڈے میگزین ہم سب کی آنکھوں کا تارا ہے۔ اس کے لگ بھگ تمام ہی لکھاری شان دار ہیں۔ افسانوں کی بات کریں تو طارق بلوچ صحرائی اور ڈاکٹر احمد حسن رانجھا اپنے الفاظ سے قاری کو اُس ماحول میں لے جاتے ہیں، جس سے افسانہ، حقیقت معلوم ہوتا ہے۔ شفق رفیع کی تحریروں کا بھی کوئی مول ہی نہیں۔ دیگر لکھنے والے بھی اپنی تحریروں سے گہرے اثرات مرتّب کر رہے ہیں۔ (محمّد اسلم بھٹی، سونی پورہ، سرگودھا)

دو انڈوں کا آملیٹ، آلو کے پراٹھے

شادی کے بعد، آج اتوار کی صبح دو انڈوں کا آملیٹ، دو آلو والے پراٹھے اور چائے کا کپ، نوش فرمائے اور بیگم سے باتیں کرتے سوچ رہا تھا کہ کافی ماہ ہوگئے، سنڈے میگزین کو خط نہیں لکھا۔ سو، حاضرِ خدمت ہوں۔ میگزین سے تعلق دائمی ہے۔ خط نہ بھی لکھوں، مطالعہ ضرور کرتا ہوں۔ سارے ہی سلسلے میرے مَن پسند ہیں۔ (شری مُرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)

ج: اوہو! ماشاء اللہ!! یعنی کہ آپ بھی ’’سند یافتہ‘‘ ہوگئے۔ بہت مبارک ہو۔ ہمارے یہاں کے 80فی صد مَردوں کی تو شادی کے بعد یہی خوشی نہیں سنبھالے جاتی کہ گرما گرم ناشتا، کھانا مل جاتا ہے۔ حالاں کہ ملتا پہلے بھی ہے، مگر امّائوں کی پہلی آواز پر بھلا کون چھلانگ مار کے اٹھتا ہے۔ وہ بے چاریاں تو آوازیں دے دے ہی تھک جاتی ہیں۔

بڑے مسائل والا تہوار؟

اصلاح فرمالیں کہ بڑی عید، سنّتِ ابراہیمی ؑاور اطاعتِ خداوندی ہے، یہ بڑے مسائل والی عید ہرگز نہیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے باپ کے حُکم پر اللہ کی راہ میں بخوشی قربان ہونے پر رضامندی ظاہر کی۔ اور جب قربانی کا عل مکمل اور قبول ہوا، تو اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے جنّت سے ایک بڑے درجے کا دنبہ عنایت فرمایا۔ یوں حضرت اسماعیل علیہ اسلام نے اپنی قربانی پیش کر کے مسلمانوں کو قیامت تک کے لیے مسائل سے نجات دِلوا دی، وگرنہ تاقیامت ہر سال مسلمانوں کواللہ کی راہ میں اپنےبچّوں کی قربانی کرنا پڑتی۔ سو، سنڈے میگزین کے ’’عیدالاضحٰی ایڈیشن‘‘ کے صفحہ نمبر4 پر تحریر شدہ مضمون کی ہیڈنگ ’’بڑی عید یا بڑے مسائل والی عید‘‘ بالکل نامناسب تھی۔ میرے خیال میں تو اتنا ہی کافی تھا کہ ’’بڑی عید اور صفائی کے انتظامات‘‘ اور بحیثیت ایڈیٹر یہ آپ کااختیار تھا کہ آپ مضمون کی مناسب ایڈیٹنگ کرکے اسے دو علیٰحدہ مضامین میں تقسیم کردیتیں۔ (ایم اے ثاقب، راول پنڈی)

ج: رہنمائی کا بےحد شکریہ۔ بے شک، جو بات دل میں کھٹکے، وہ غلط ہی ہوتی ہے۔ ہیڈنگ بناتے ہوئے یہ خیال ذہن میں آیا کہ کہیں اس سُرخی کے سبب ایک عظیم تہوار سے متعلق کوئی منفی تاثر نہ چلا جائے۔ لیکن یہ سوچ کے جانے دیا کہ نیّتوں کا حال اللہ جانتا ہے۔بہرحال، اِک عیدالاضحٰی پر کیا موقوف، اُمّتِ مسلمہ کے تو بیش تر معاملات کا اللہ ہی حافظ ہے۔ آپ تو ’’بابوئوں کے شہر‘‘ میں رہتے ہیں، آپ تصوّر بھی نہیں کرسکتے کہ شہرِ قائد کے باسی عیدالاضحٰی کے تصوّر ہی سے کیسے خوف زدہ ہو جاتےہیں کہ پھر ہم مہینوں جس گندگی و غلاظت کے ڈھیر کے ساتھ گزارہ کرتے ہیں، وہ کچھ ہمارا ہی حوصلہ ہے۔

خواتین کی تعریف

قابلِ صداحترام ایڈیٹر صاحبہ! صحت و سلامتی کے ساتھ زندگی کاسفرجاری رکھیں۔ آپ کے لیے دُعاگو ہوں کہ بہرحال آپ جو عظیم ذمّے داری، بطور ایڈیٹر، سنڈے میگزین نبھا رہی ہیں، وہ آسان نہیں۔ مَیں نے اِس سے قبل تین خطوط ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے لیے لکھے، جو تینوں ہی آپ نے شایع فرماکر بندۂ ناچیز پر احسان فرمایا۔ پہلے خط کا عنوان آپ نے ’’خوشامد کی رشوت‘‘ لکھا، جسے پڑھ کر بہت ہی محظوظ ہوا۔ واقعی مَیں نے ارادتاً آپ کی کچھ تعریف کی تھی، کیوں کہ سُن رکھا تھا کہ ’’خواتین اپنی تعریف پڑھ،سُن کرخوشی محسوس کرتی ہیں‘‘مگریہ بھی سچ ہے کہ کچھ لوگ واقعی تعریف کے قابل ہوتے ہیں، جن میں سے ایک آپ بھی ہیں۔ آپ خطوط کے جوابات جس طرح برجستہ اور موقع محل کےمطابق کبھی خوش اور کبھی خشک مزاجی سے دیتی ہیں، بہت اچھا لگتا ہے۔ کچھ اختصار اختیار کرتا ہوں۔ پہلے آپ کی تحریر صرف اسٹائل کےصفحات پر دیکھتا تھا۔ پھر ایک دو دفعہ سال کے شروع اور اخیر میں بھی آپ کے مضامین نظر سے گزرے تو اندازہ ہوا کہ آپ تو جس جرأت و شجاعت سے خطوط کے جواب دیتی ہیں، اُسی انداز میں اربابِ اقتدار کے ضمیر بھی جھنجھوڑتی ہیں۔ الفاظ کے چنائو اور استعمال میں بھی ثانی نہیں۔ اگر آپ نے کوئی کتاب لکھ رکھی ہے، تو ضرور بتایئے گا۔ میگزین کے تقریباً تمام ہی سلسلے قابلِ تعریف ہیں، خاص طور پر منور مرزا کی تحریریں حالاتِ حاضرہ اور بین الاقوامی حالات کی اچھی ترجمانی کرتی ہیں۔ محمود میاں کی اصلاحی، معلوماتی نگارشات بھی بہت ہی مفیداور قابلِ قدر ہیں۔ نئی ناول نگار، کرن عباس کا آغاز تو اچھا لگا، آگے آگے دیکھیے، ہوتا ہے کیا۔ ڈاکٹر افضل میاں کا سی پی آر سے متعلق اور ڈاکٹر محمّد واسع شاکر کا الزائمر سے متعلق مضمون مفید معلومات پرمبنی تھا۔ دونوں کا بےحد شُکریہ۔ (محمد اشرف سپرا، شاہدرہ، لاہور)

ج: معذرت، ہمیں اپنی بےجا تعریف پڑھ کے قطعاً خوشی نہیں ہوتی۔ آپ کی سچّی تعریف واقعتاً اچھی لگی کہ بندے کو خود بھی پتا ہوتا ہے کہ اس کا کون سا عمل قابلِ تعریف ہے، کون سا نہیں۔

                                                         فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

ہم کراچی والے کتنے صابر و شاکر ہیں کہ کے الیکٹرک، کے ایم سی، ڈی ایم سی، کے ڈی اے اور بھانت بھانت کی سیاسی جماعتوں کے بیچ بس ’’چُوں چُوں کا مربّا‘‘ بن کر ہی رہ گئے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ ؎پھر یوں ہوا کہ صبر کی انگلی پکڑ کے ہم.....اتنا چلے کہ راستے حیران رہ گئے۔ خصوصاً سائیں سرکار نے تو قسم اُٹھا رکھی ہے کہ انہوں نے شہر میں کوئی ایک ترقیاتی کام نہیں کروانا، پورا شہر غلاظت کا ڈھیر بن جائے، لوگ گندا پانی پی کر، کتّوں کے کاٹے سے مرتے رہیں، کوئی پروا نہیں۔ خیر، ایک ’’سنڈے میگزین‘‘ تو ہے ناں، ہمارے ہر دُکھ درد کا مرہم۔ سو، آج میں تین شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ سب سے پہلے 6ستمبر کے ایڈیشن پر، جس میں م۔ ح۔ سحاب کا آرٹیکل بہت زبردست تھا۔ نیز، تصاویر بھی شان دار تھیں۔ میجر صاحب کا انٹرویو لاجواب رہا۔ میجر عامر کے بارے میں سُنا تو بہت تھا، اب سنڈے میگزین کے توسّط سے ملاقات بھی ہوگئی۔ شفق رفیع کا مضمون نَم آنکھوں سے پڑھا۔ اس شمارے میں ماڈل کا انداز خاصا بولڈ تھا۔ ایک درخواست ہے، سال میں کم از کم ایک بار میل ماڈلز کو بھی موقع دے دیا کریں۔ ’’طالبان کا نیا امتحان‘‘ بہترین تجزیہ تھا۔ اور اب 12ستمبر کے شمارے پر تبصرہ، حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے محمّد احمد غزالی نے بہت ہی پیاری تحریر لکھی۔ لگتا ہے، محمود میاں اب آرام فرما رہے ہیں۔ ویسے محمّد احمد غزالی کا اندازِ تحریر بھی انتہائی رواں اور خُوب صُورت ہے۔ سیّد علی شاہ گیلانی سے متعلق منور راجپوت کے لاجواب مضمون کے تو کیا ہی کہنے۔ آپ نے ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ نیا سلسلہ شروع کیا،زبردست۔ اس قدر منفرد اور دل چسپ سلسلے کے آغاز پر آپ کے بےحد ممنون ہیں،فاروق اقدس کی معلومات، طرزِ تحریر لاجواب ہے۔ درخواست ہےکہ سلسلہ جاری رکھیے گا اور اگر ہر ہفتے کسی ایک ہی خاتون پر زیادہ معلومات دےدی جائیں، تو سلسلہ طویل بھی ہو سکتا ہے اور معلومات بھی سیر حاصل ہوں گی۔ یوں بھی فرزانہ راجہ نے ’’جو باجا بجایا‘‘ اُس پر اگر تفصیل سے بات کی جاتی تو شاید میگزین کے دو صفحات بھی کم پڑجاتے۔ عالیہ کاشف نے اداکار فیضان شیخ سے ملوایا۔ پتا نہیں کیوں، مجھے یہ کچھ چھچھورے ٹائپ لگتے ہیں۔ یونہی چلتے پھرتے اُن کا شو دیکھنےکااتفاق ہوا۔ خیر، کتابوں پر تبصرہ کبھی اختر سعیدی کرتے ہیں، کبھی منور راجپوت، ایسا کیوں؟ اور اب 19ستمبر کے ایڈیشن پر بات، منور مرزا پوچھ رہےتھے کہ اب جرمنی کی رہنمائی کون کرے گا، تو جی میں آیا کہ بتادوں ہم سب کراچی والوں کو کم از کم 20سال تک وال چاکنگ کے ذریعے بتایا گیا کہ ’’اب کون کرے گا رہنمائی… بھائی…بھائی‘‘۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں شیخ عبدالقادر جیلانی سے متعلق محمّد احمد غزالی کی بےمثال تحریر پڑھی۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ میں تہمینہ دولتانہ اور ناہید خان کی سرگزشت شامل تھی۔ فاروق اقدس نے 12ستمبر کے شمارے میں لکھا کہ فرزانہ راجہ نے بےنظیر بھٹو کا انداز اپنایا، تو مَیں اس کی تصحیح کردوں کہ بی بی کی 100فی صد نقّالی فہمیدہ مرزا نے کی، نہ کہ فرزانہ راجہ نے۔ ’’قفل‘‘ ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ بہت شکریہ کہ آپ نے بالآخر ’’دھندلے عکس‘‘ نامی ناول شروع کر ہی دیا۔ اب براہِ کرم اسے درمیان میں مت روک دیجیے گا۔ تابش دہلوی سے متعلق مضمون میں اُن کی کوئی غزل بھی شامل کردیتیں تو مضمون مکمل ہوجاتا۔ ناقابلِ فراموش کی دونوں تحریریں اچھی تھیں۔ خطوط میں محمّد سلیم راجہ، نازلی فیصل، پیر جنید علی چشتی کےخط پسند آئے اور یہ اپنے خاندانی نواب زادے کہاں غائب ہیں؟ (عدنان حسین خان، اللہ بخش ویلیج، احسن آباد، گڈاپ ٹاؤن، کراچی)

ج: نئی کتابوں پر تبصرہ کوئی بھی کرے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ آپ کو تبصرے پڑھنے کو مل رہے ہیں، کافی نہیں۔ اور خاندانی نواب کہاں غائب ہیں، وہ تو ہر دوسرے ہفتے موجود ہوتے ہیں۔ 

گوشہ برقی خُطوط

  • اسلام نے طلاق کو پسند نہیں کیا، اس سے متعلق تحریر عجیب سی لگی؟ (فرزانہ، گجرات)

ج:ہم نے کون سا تحریر میں طلاق کو پروموٹ کیا تھا۔ اسلام نے طلاق کو ناپسند کیا ہے، طلاق پر بات کرنےکو نہیں۔ اور جب تک کسی موضوع پر بات نہیں ہوگی، اُس کے مضرّات کیسے سامنے آئیں گے۔

  • مَیں ایک غزل بھیجنا چاہ رہا ہوں، کیسے بھیج سکتا ہوں؟ (معاذ انصاری)

ج:ہاتھ سے لکھ کےہمارےایڈریس پر پوسٹ کر سکتے ہیں اور اُردو اِن،پیج میں کمپوزڈ فائل کی صُورت ای میل بھی کرسکتے ہیں۔

  • ’’گدھے ہمارے دوست ہیں‘‘ کمال کی سُرخی تھی۔ اور منور راجپوت نے کیا شان دار مضمون تیار کیا۔ بخدا گدھوں سے متعلق کوئی پہلو تشنہ نہیں رہنے دیا۔ ویسے آپ کی ٹیم میں تین بہت ہی زرخیز ذہن ہیں۔ ایک منور راجپوت، دوسرے رائو شاہد اقبال اور تیسری شفق رفیع۔ (صبا مہرین)

ج:سوفی صد درست کہا…تمہارا تجزیہ بھی کمال ہے۔

  • آپ کا جریدہ آؤٹ کلاس ہے، اس کے بغیر اتوار کا دن گزر ہی نہیں سکتا۔ اور یہ آپ کی اسماء خان دمڑ کتنے خیالی پلاؤ پکاتی ہے بھئی۔ مَیں فادرزڈے کے موقعے پر کہہ نہیں سکا تھا، لیکن میرے والد دنیا کے عظیم ترین والد ہیں۔ مَیں اُن سے اپنی ہر غلطی کی دل سے معافی چاہتا ہوں۔ (احسن ممتاز)

ج:اگر آپ کے والد بھی’’آپ کا صفحہ‘‘ کے قاری ہیں، تو یقیناً پیغام پڑھ کرانہیں اچھا لگے گا، ویسے باپ سے اظہارِ محبّت و عقیدت کے لیے کسی مخصوص دن کا انتظار کرنا بھی نہیں چاہیے۔

  • ’’ناقابلِ فراموش‘‘میں عفّت زرّیں کی ایک تحریر شایع ہوئی۔ ایک فیملی بالکل ایسے ہی مسئلے سے دوچار ہے، مَیں اُن کی مدد کرنا چاہتی ہوں، تو کیا مجھے عفّت زرّیں کا نمبر مل سکتا ہے۔ (حنا شاہد)

ج:کسی بھی لکھاری کا نمبر اُس کی اجازت کے بغیر نہیں دیا جاسکتا، لیکن عفّت زرّیں نے اپنا نمبر دینےکی خود اجازت دی ہے، لہٰذا آپ میں سے جو بھی اُن سے براہِ راست بات کرنا چاہتا ہے۔ جنگ کے میگزین سیکشن میں کال کر کے ہم سے اُن کا نمبر حاصل کرسکتا ہے۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین