صوبۂ بلوچستان تیل، گیس، کوئلے اور دیگر معدنیات سے مالامال ہونے کے باوجود آج بھی اقتصادی و سماجی لحاظ سے نہایت پس ماندہ ہے، اور یہ امَر ملک کے اس سب سے بڑے صوبے کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی غمازی کرتا ہے۔ اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ماضی کی حکومتوں نے بلوچستان کے مسئلے پر کبھی سنجیدگی اور فہم و فراست کا مظاہرہ نہیں کیا، حالاں کہ ملک میں توانائی کے بحران سمیت دیگر مسائل سے نمٹنے کے لیے صوبۂ بلوچستان کے وسائل سے بہت حد تک استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
ضرورت اس امَر کی ہے کہ اس معاملے پر بھرپور فراخ دلی کے ساتھ بلوچ عوام کے جذبات و احساسات کو اوّلین ترجیح دی جائے۔ اس صوبے کی اہمیت سے اس لیے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس کی سمندری حیات اور معدنی ذخائر بھی ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ مگر ان خزانوں سے بڑے ساہوکار تو مستفید ہورہے ہیں، لیکن عام افراد غربت، بے چارگی اور کس مپرسی ہی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
صوبۂ بلوچستان قدرتی حسن و خوب صورتی سے مالامال ہونے کے ساتھ ساتھ ثقافتی، سماجی اور سیّاحتی اعتبار سے بھی نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ یہاں کے بے شمار تاریخی اور تفریحی مقامات کے سبب بھی ملکی و غیر ملکی سیّاح بڑی تعداد میں یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ تاہم، معدنیات کی دولت سے مالا مال اس صوبے کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں کے عوام آج بھی ترقی کے ثمرات سے محروم ہیں، انھیں بجلی، پانی کی عدم دست یابی کے علاوہ اکثر بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے خشک سالی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے،جب کہ دیگر مسائل میں صحت اور تعلیم کا مسئلہ بھی انتہائی گمبھیر ہے۔
صوبے کے عوام، خصوصاً سیّاحوں کا ایک دیرینہ مطالبہ صوبے کی اہم شاہ راہوں کو دو رویہ کرنے کا ہے کہ شاہ راہیں دو رویہ نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز الَم ناک حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ پھر سیر و سیّاحت کی غرض سے آنے والوں کے علاوہ اندرونِ ملک سے لاکھوں افراد روزگار وغیرہ کے لیے بھی بلوچستان کارخ کرتے ہیں، جب کہ خود یہاں کے باسی بھی ملک کے دیگر شہروں کا سفر کرتے ہیں، تو ان قومی شاہ راہوں پر آئے روز ہونے والے حادثات سے درجنوں افراد زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں یا پھر زندگی بھر کی معذوری ان کا مقدّر بن جاتی ہے۔
حادثات کی بڑی وجہ جہاں شاہ راہوں کے تنگ اور خطرناک موڑ ہیں، وہیں ایک بڑی وجہ ٹریفک ہدایات پر مبنی سائن بورڈز کی عدم موجودگی بھی ہے، جس کے باعث آئے روز خوف ناک حادثات رونما ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں، سواریوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر بٹھانے اور زیادہ سامان لاد لینے کی وجہ سے بھی جان لیوا حادثات ہوتے رہتے ہیں۔
پھر ان شاہ راہوں پر زیادہ تر ریفلیکٹر اور کیٹ آئیز ٹوٹنے اور سڑک پر دھنسی کیلیں ابھرنے کی وجہ سے بھی تیز رفتار گاڑیوں کے ٹائر پنکچر ہوجاتے ہیں یا بعض اوقات دھماکے سے برسٹ ہوکرحادثات کا سبب بن جاتے ہیں۔ جب کہ بسوں، ٹرکوں میں اوور لوڈنگ اورڈرائیوروں کی تیز رفتاری تو معمول کی بات ہے، جسے قواعد و ضوابط پر موثر طور پر عمل درآمد کروا کر ہی کنٹرول کیا جاسکتا ہے، لہٰذا اس ضمن میں فوری طور بھاری جرمانوں اورڈرائیونگ لائیسنز کی ضبطگی جیسے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
یہ ایک المیہ ہی ہے کہ پورے صوبے میں کہیں بھی دو رویہ سڑکیں نہیں ہیں، جب کہ حادثات کے تدارک کے لیے صوبے کی اہم شاہ راہوں کو جدید خطوط اور انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے مطابق دو رویہ بنانا لازم ہے۔ پھر ان سڑکوں کو دو رویہ کرکے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پیٹرول پمپس، گیراجز سمیت بنیادی مراکزِ صحت قائم کرکے بھی مسافروں کو اذیّت ناک سفر سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔ اس ضمن میں ضرورت اس امَر کی ہے کہ طویل المدّتی اقدامات کے تحت موٹر وے پولیس کا دائرئہ کار حب چوکی سے مستونگ اور ژوب سے کچلاک تک بڑھایا جائے۔
نیز، چمن سے کراچی تک جانے والی شاہ راہ پر بھی روزانہ سیکڑوں افراد مختلف کوچز، بسز اور دیگر گاڑیوں سےسفرکرتے ہیں۔ ان راستوں پر ٹرالر ، ٹینکرز اورٹرکس بھی بڑی تعداد میں چلتے نظرآتے ہیں، جواشیائے خورونوش، پیٹرول اورایل این جی گیس وغیرہ افغانستان، ایران اور اندرونِ صوبہ ترسیل کرتے ہیں، یہ ہیوی وہیکلز بھی عموماً جلدازجلد منزلِ مقصود تک پہنچنے کی دھن میں خوف ناک حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور پھر حادثات کے بعد ان راستوں پر قدم قدم پہ ٹوٹی پھوٹی گاڑیاں بکھری نظر آتی ہیں، جن کی درستی کے لیے شہری آبادیوں سے میکینکس لانے پڑتے ہیں۔
اس طرح چند دنوں کا سفر ہفتوں پر محیط ہوجاتا ہے۔ اگرچہ کوئٹہ سے براستہ بولان کراچی اور لاہور کے سفر میں اس طرح کی دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، مگرجب یہ سفر کوئٹہ ، خضدار ، کراچی یا کوئٹہ ، قلعہ سیف اللہ ، ڈی آئی خان ، اسلام آباد ، لاہور کا ہو، تو خاصا طویل اور تکلیف دہ ہوجاتا ہے۔ اس طویل سفر میں قیام وطعام کے اخراجات و دیگر سہولتوں کافقدان بھی درپیش رہتا ہے۔
یاد رہے، ہم سایہ ممالک افغانستان اور ایران سے ملحقہ آبادیوں کے افراد تجارت کی غرض سے ان ہی شاہ راہوں پر سفر کرتے ہیں۔ ایران سے سستے داموں پیٹرول، پلاسٹک کی مصنوعات اورخورونوش کے معیاری سامان کی خرید و فروخت، جب کہ افغانستان سے گاڑیوں کے فاضل پرزہ جات، خشک میوہ جات، قالین اوربعض دیگر اشیاء چھوٹے تاجروں کے روزگار کا بڑا ذریعہ ہیں، مگر غیر قانونی نقل و حمل اور اسمگلرز کے خلاف کارروائی کی وجہ سے جب یہ بارڈرز بند کردیئے جاتے ہیں، تو چھوٹے تاجر اور روزانہ کی بنیاد پر سامان لانے والے افراد بے روزگار ہوجاتے ہیں۔ نیز، ان سرحدی علاقوں میں چند برسوں سے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے بھی خشک سالی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔
صوبۂ بلوچستان کی اہمیت کے پیشِ نظر یہاں بھی ’’سی پیک منصوبے‘‘ کے تحت سڑکوں کا جال بچھانا تھا، مگر بوجوہ عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ بہرحال، صوبے کی ان اہم شاہ راہوں کی بہتری کا واحد حل معیاری سڑکوں کی تعمیرو توسیع کے علاوہ انھیں دو رویہ کرنا ہے۔ ساتھ ہی ان سڑکوں کو فوری طور پر انٹرنیشنل معیار کے مطابق تعمیر کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ یہ سڑکیں یورپ اور سینٹرل ایشیا تک کاروبارکرنے والو ں کے لیے ہمیشہ سے اہم رہی ہیں، جب کہ کوئٹہ اور کراچی کے اسپتالوں میں علاج کے غرض سے جانے والے افراد کی بڑی تعداد بھی یہی شاہ راہیں استعمال کرتی ہے۔
اس ضمن میں کوسٹل ہائی وے کراچی سے اورماڑہ، پسنی تک 653کلومیٹر سڑک کا شمار اہم شاہ راہ میں ہوتا ہے، اس روٹ پر اگرچہ بھاری ٹریفک نہیں ہوتی، لیکن پھربھی حادثات ہوتے رہتے ہیں۔گوادر پورٹ کے باقاعدہ فعال ہونے کی صورت میں اس قومی شاہ راہ پر اس سے بدتر صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ ہے،کیوں کہ یہاں کی سڑکیں بھاری بھر کم گاڑیوں کابوجھ برداشت نہیں کرسکتیں۔
کوئٹہ، سوراب سے پنجگور اور تربت سے گوادر تک نئی تعمیر ہونے والی سڑک سے گوادر کا فاصلہ کوئٹہ سے جانے والوں کے لیے کافی کم ہوگیا ہے۔ فی الحال، اس راستے پر ٹریفک کم ہے۔ تاہم، آگے چل کر یہ سڑک بھی دورویہ ہونے کا تقاضا کرے گی۔لہٰذا ضروری ہے کہ بلوچستان کی قومی شاہراہ وں پر خصوصی توجّہ دے کر انہیں فوری طورپر دورویہ کیاجائے تاکہ مسافروں کا سفر محفوظ اور آرام دہ ہوسکے۔
صوبے میں صحت کی عمومی صورتِ حال کی بات کی جائے، تو یہ سہولت صرف بتیس فی صد آبادی کو میسّر ہے اور آبادی کی اکثریت اپنے اس بنیادی حق سے بھی محروم ہے۔ بلوچستان میں آبادی کے لحاظ سے ہرسات ہزار تین سوافراد کے لیے محض ایک ڈاکٹر ہے۔ دیہی علاقوں کی حالتِ زار تو شہری علاقوں سے بھی بدتر ہے۔ صوبےکے بتیس اضلاع کے 549 بیسک ہیلتھ یونٹس میں سے صرف ایک سو گیارہ ہی فعال ہیں، جہاں ایمبولینسز اور اسٹریچرز کی کمی کے علاوہ ڈاکٹرز اور نرسنگ اسٹاف کی قلّت بھی بہت بڑا مسئلہ ہے ۔
وسیع رقبے پر محیط ہونے کی وجہ سے صوبے کے آبادی والے علاقے دور دور واقع ہیں اور ان علاقوں کو آپس میں ملانے والے لِنک روڈ کچے اور ٹوٹے پھوٹے ہیں۔ اسی وجہ سے طبّی مراکز بھی عوام کی دسترس سے بہت دورہیں ۔ کوئٹہ، بلوچستان کا سب سے بڑا شہر ہے، جہاں پانچ بڑے اسپتال ہیں ۔ تاہم، ان اسپتالوں میں بھی جدید آلات کے فقدان اور کینسر کا کوئی اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے بیش تر شہری علاج کے لیے کراچی کا رخ کرنے ہی پر مجبور نظر آتے ہیں۔
صوبۂ بلوچستان جغرافیائی اعتبار سے ملک کے تقریباً نصف حصّے پر محیط ہے، لیکن تعلیم اور شرحِ خواندگی کے لحاظ سے بھی یہ صوبہ ملک کے تمام صوبوں سے بہت پیچھے ہے۔ صوبے میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے سرکاری و نجی سطح پر پر مختلف منصوبے تشکیل دینے اور خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود یہ شعبہ تنزلی کا شکار ہے۔
صوبے بھر کے مختلف دیہات میں چار ہزار سے زائد ایسے پرائمری اسکولز ہیں، جن کی کوئی عمارت ہی نہیں۔ تعلیم کی مایوس کن صورتِ حال کے سبب بلوچستان میں شرحِ خواندگی بہت کم ہے۔ 22ہزار پانچ سو دیہات میں سے 12ہزار گاؤں تو ایسے ہیں، جہاں سرے سے کوئی اسکول ہی نہیں۔
صوبے میں 10ہزار کے قریب گھوسٹ اساتذہ ہیں، جب کہ کئی مڈل اسکولز 3سے 14اساتذہ، تو کئی ایک محض ایک سے دو اساتذہ کے ساتھ چلائے جارہے ہیں۔ صوبے کے 27لاکھ میں سے 19لاکھ بچّے اسکول نہیں جاتے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بھی بے روزگاری دیکھ کر والدین بچپن ہی سے بچّوں کو چھوٹے موٹے کاموں پر لگادیتے ہیں۔ صوبے کے 36فی صد اسکولز میں پانی کا، جب کہ 56فی صد میں بجلی کا مسئلہ ہے۔ نیز، 15فی صد اسکولوں کی عمارتیں بے کار پڑی ہیں۔ پھر حالیہ کووِڈ لہر کے بعد اسکول چھوڑنے والے بچّوں کی تعداد میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
الغرض، نصف پاکستان تصور کیے جانے والا صوبہ بلوچستان، جس نےاپنی قیمتی معدنیات سے ملکی معیشت کے ایک بڑے حصّے کو سنبھالا ہوا ہے،جہاں سے بیش بہا قیمتی ذخائر کے علاوہ ’’سوئی‘‘ کے مقام سے نکلنے والی گیس پورے مُلک میں پہنچتی ہے، اُس کے محض چند شہروں کے علاوہ دیگر شہروں کے باسی، حتیٰ کہ سوئی شہر، جہاںسے گیس نکالی جاتی ہے،اس نعمت سے محروم ہیں۔ تعلیم، صحت اور شاہ راہوں کے مسائل تو ایک طرف، بلوچستان کے کسی میگا پراجیکٹ سے بھی یہاں کے باسیوں کے حالاتِ زندگی میں کوئی بہتری آئی، نہ ترقی و خوش حالی نصیب ہوئی۔
اگرچہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سمیت دیگر پلیٹ فارمز سے مسلسل دعوے کیے جاتے ہیں کہ بلوچستان کی تعمیر و ترقی پر خصوصی توجّہ دی جارہی ہے۔ ’’آغازِ حقوقِ بلوچستان پیکیج‘‘ جیسے خوش نما اعلانات کرکے صوبے کو ترقی کی راہ پر گام زن کرنے کی نوید سنائی جاتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس صوبے میں بسنے والے بچّوں اور جوانوں کی بڑی تعداد نہ صرف تعلیم و صحت کی سہولتوں بلکہ مجموعی طور پر پورا صوبہ ترقی و خوش حالی کے ثمرات سے یک سر محروم ہے۔