اکیسویں صدی کے اس سائنسی دور میں اگر ہم آسمان پر نظر دوڑایں تو ہمیں وسیع کائنات کی چادر دکھائی دیتی ہے، جس میں لاکھوں ستارے جگمگا رہے ہیں اور کیا معلوم انہی جگمگاتے ستاروں کے آغوش میں پائے جانے والے کسی سیارے پر زندگی دریافت ہوجائے ۔آج تک انسان تقریباً 4 ہزار سے زائد ایسے سیارے دریافت کرچکا ہے جو دوسرے ستاروں کے گرد محو گردش ہیں لیکن ان میں سے 200 کے قریب ایسے سیارے ہیں جن کا ماحول ہماری زمین سے مطابقت رکھتا ہے، یعنی اگر ان سیاروں پر زندگی کے بنیادی عناصر ہوں گے تو یقیناً زندگی کی کوئی نہ کوئی شکل نشوونما پا رہی ہوگی لیکن کیا ہمارے نظام شمسی میں کرۂ ارض کے علاوہ کہیں زندگی موجود ہوسکتی ہے؟
سائنس دانوں کی جانب سے اس سوال کے ملے جلے جوابات ملتے ہیں ،کیوں کہ اگر نظام شمسی میں انسانی زندگی کی بات کی جائے تو وہ صرف ہماری زمین پر ہی ممکن ہے۔ اگر چھوٹے جانداروں کی بات کی جائے، جن میں بیکٹیریا وغیرہ شامل ہیں، تو نظام شمسی میں ان کی موجودگی کے امکانات زیادہ ہیں۔واضح رہے کہ کائنات میں زمین کے علاوہ اگر کسی بھی جگہ پر کسی طرح کی زندگی کی تلاش جاری ہے تو وہ زندگی انہی خورد بینی جانداروں پر مشتمل ہے۔ہم جانتے ہیں کہ زمین ہمارے سورج سے اتنے فاصلے پر موجود ہے جہاں درجۂ حرارت نہ زیادہ گرم اور نہ زیادہ ٹھنڈا ۔
اس لیے اس سیارے پر موجود پانی، جو زندگی کے بنیادی عناصر میں سے ایک ہے، مائع حالت میں موجود ہے لیکن اگر ہم سیارہ عطارد اور زہرہ کے بارے میں سوچیں، جو زمین کے مقابلے میں سورج سے زیادہ قریب ہیں، تو ان سیاروں پر گرمی کی شدت دیکھ کر اس بات کا تصور کرنا بھی محال ہے کہ ان پر زندگی موجود ہوسکتی ہے،مگر 2012 ءمیں سیارہ عطارد کے گرد بھیجے گئی 'میسنجر خلائی گاڑی نے سیارے کے شمالی قطب پر موجود گہرے گڑھوں میں جما ہوا پانی (برف) دریافت کیا، سائنس دانوں کے لیے یہ دریافت نہایت حیران کن تھی، کیوںکہ عطارد ایسا سیارہ ہے جو سورج سے صرف 5 کروڑ کلومیٹر کی دوری پر موجود ہونے کی وجہ سے فضا سے بھی محروم ہے۔
اس سیارے پر دن اور رات کے درجہ ٔحرارت میں تقریباً 400 ڈگری سینٹی گریڈ کا فرق ہے لیکن برف کی دریافت کے بعد سائنس داں اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ اگر سیارے پر پانی موجود ہے تو یقینا ًزندگی کے امکانات بھی ہوں گے ۔اسی طرح سیارہ زہرہ، جو نظام شمسی کا گرم ترین سیارہ ہے، پر بھی زندگی پا جانے کے امکانات تقریبا ًنہ ہونے کے برابر ہیں ،کیوںکہ سیارے کی فضا میں تیزاب کے گہرے بادلوں کی وجہ سے ہزاروں سالوں سے سورج سے آنے والی گرمائش قید ہے۔
یہ سیارہ حجم میں ہماری زمین کے برابر ہے ،مگر دونوں سیاروں کے فضائی ماحول میں بہت زیادہ فرق ہے، اس سب کے باوجود سائنسدان پراُمید ہیں کہ شاید اس گہرے بادلوں میں کہیں ایسی جگہ بھی موجود ہو جہاں زندگی پھل پھول رہی ہو۔اس کے بعد اگر نظام شمسی کے چوتھے سیارے یعنی سیارہ مریخ کا جائزہ لیں تو اس سیارے سے آئے روز کوئی تازہ ترین خبر موصول ہوتی ہے، اس سیارے پر مختلف خلائی اداروں کی جانب سے خلائی گاڑیاں بھیجی گئی ہیں جن میں سر فہرست امریکی خلائی ادارہ ناسا ہے، جس کی جانب سے بہت سے 'روورز (مریخ کی سطح پر چلنے والی گاڑیاں) بھیجی گئی ہیں۔
ان گاڑیوں کی مدد سے مریخ پر ماضی میں موجود پانی کے دریاؤں، مریخ کی سطح کے نیچے پانی کی موجودگی اور اسی طرح کی بہت سی دریافتیں کی جاچکی ہیں۔مریخ کے بعد نظام شمسی سے باقی چاروں سیارے چٹانی نہیں بلکہ گیس کے بنے ہوئے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان سیاروں پر کوئی خلائی گاڑی نہیں اُتر سکتی، جس طرح 1969 ءمیں چاند پر اپولو 11 کی خلائی گاڑی یا 2000 کے بعد سے مریخ پر مختلف خلائی گاڑیاں اُتاری گئیں۔
سائنس دانوںکو ان سیاروں میں اگرچہ زندگی کے امکانات نہیں ملے لیکن عین ممکن ہے کہ ان سیاروں کے گرد چکر لگانے والے چاند کسی طرح کی زندگی کو چھپائے ہوئے ہوں، جس پر سے سائنس داںعنقریب پردہ اُٹھا دیں گے۔ہم جانتے ہیں کہ نظام شمسی کے پانچویں اور سب سے بڑے سیارے، سیارہ مشتری پر بہت بڑا طوفان برپا ہے جو تقریباً 350 سالوں سے قائم و دائم ہے لیکن اسی خطرناک سیارے کے ایک چاند، یوروپا، پر زندگی کے کچھ بنیادی عناصر ملنے کی معلومات ہمیں ہبل خلائی دوربین اور اس سیارے کے گرد بھیجی گئی بہت سی خلائی گاڑیوں سے ملی ہیں لیکن مشتری کے اس چاند پر زندگی کی تلاش کے لیے امریکی خلائی ادارہ ناسا چند سالوں میں ایک خلائی مشن بھیجے گا، اس مشن کو 'یوروپا ’’کلپر‘‘کا نام دیا گیا ہے۔
مشتری کی طرح زحل کا ایک چھوٹا اور برفیلا چاند، اینسلادس، بھی اپنی 15 سے 20 کلومیٹر موٹی برف سے بنی کرسٹ (باہری سطح) کے نیچے گرم پانی کے سمندر چھپائے ہوئے ہے، جس میں بہت سے نامیاتی مالیکیوز بھی موجود ہیں، اس چاند پر گرمائش، مائع حالت میں پانی اور نامیاتی مالیکیولز تینوں ہی عناصر موجود ہیں، جس سے اس پر زندگی کے امکانات بہت زیادہ ہیں ،کیوںکہ یہی تینوں چیزیں زندگی کے لیے بنیادی عناصر کے طور پر لی گئی ہیں ۔نظام شمسی کے آخری دونوں سیاروں، نیپچون اور یورینس، کے گرد چاند تو ہیں لیکن ان دونوں سیاروں کے لیے ابھی تک کوئی مخصوص مشن نہیں بھیجا گیا۔
ان دونوں کی تصویر پہلی مرتبہ 1980ء کی دہائی میں وائجر خلائی گاڑیوں نے بھیجی تھیں۔ باوجود اس کے کہ ان سیاروں پر اگرزندگی موجود ہوئی تو ماہرین کے پاس اس کے بارے میں کوئی زیادہ معلومات نہیں ہے لیکن ہاں، یہ ضرور معلوم ہے کہ ان سیاروں پر بارشیں ہوتی ہیں اور وہ بھی ہیروں کی بارش!تو اگر ان سیاروں کے چاندوں میں سے کسی پر بھی زندگی موجود ہے تو ہوسکتا ہے کہ یہ بارش کی بوندوں کی شکل میں برسنے والا ہیرا ان کے لئے فائدہ مند ثابت ہو۔