ماہرین فلکیات کائنات میں چھپے پوشیدہ رازمنظر ِعام پرلانےکے لیے مختلف انداز سے تحقیق کرتے رہتے ہیں ۔اسی ضمن میں چند سال قبل یورپی خلائی ادارے نے کائنات کی قدیم ترین روشنی کا ایک نیا نقشہ تیار کیا تھا ،جس کے ذریعے یہ معلوم ہوا تھا کہ کا ئنات کی عمر پہلے لگائے گئے تخمینے سے زیادہ ہے ۔سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ یہ نقشہ کائنات کی ابتدا اور ارتقاء کے بگ بینگ ماڈل کی بہت بہتر ین انداز سے توثیق کرتا ہے،تا ہم اس نقشے میں ایسےنکات بھی ہیں جو غیر متوقع ہیں اور ان کی وجہ سے بعض تصورات کودرست کرنا پڑے گا ۔یہ نقشہ مصنوعی سیارے پر نصب پلانک نامی دوربین سے15 ماہ تک جمع کردہ ڈیٹا کی مدد سے تیار کیا گیا تھا ۔
اس نقشے سے کاسمک تاب کاری یا کائناتی تاب کاری بیک گر ا ئو نڈ (سی ایم بی ) کی تفصیل سامنے آتی ہے ۔ سی بی ایم وہ مدھم سی مائیکرو ویو روشنی ہے جو کائنات کے ہر مقام سے آرہی ہے ۔ایک اندازے کے مطابق کائنات کی عمر 3 ارب 77 سال ہے۔ حالاں کہ اس نقشے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات کی عمر13 ارب 82 کروڑ سال ہے ۔ علاوہ ازیں کائنات میں موجود مادّہ 37.7 فی صد ہے جو پہلے کے تخمینے سے تھوڑا سا زیادہ ہے اور سیاہ توانائی(ڈارک انرجی ) تھوڑی سی کم،یعنی،68.3 فی صد ہے ۔
سیاہ توانائی وہ طاقت ہے جو کائنات کو زیادہ رفتار سے پھیلا رہی ہے ۔ اُس تاریک قوت کے عمل پذیر ہونے سے کہکشاؤں کے درمیان طویل فاصلوں نے جنم لیا اور یہ ایک دوسرے سے بہ تدریج دوری اختیار کر گئیں۔ ماہرین نے اس نقشے میں بِگ بینگ کے بعد رونما ہونے والی تقریباً تمام تبدیلیوں کو کسی طور جامعیت دینے کی بھی کوشش کی۔ اسی نظریے کے تحت نقشہٴ کائنات میں انتہائی دوری پر مختلف کہکشاؤں کو متحرک دکھایا گیا ہے۔اس نظریے کے ماہرین کے مطابق کائنات میں بگ بینگ کے بعد پیدا ہونے والی کاسمک تاب کاری کے باعث گلیکسیز اور ملکی ویز میں دوری وقوع پذیر ہوئی تھی ۔
برطانیہ کیPortsmouthیونیورسٹی کے سائنسدان میٹ پیئری (Mat Pieri) کا کہنا ہے کہ اس تحقیقی عمل کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ اربوں سالوں کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد بھی یہ کائنات ابھی نوعمر ہے۔کائنات کے جس نقشے کو مرتب کیا گیا ہے، اس پر 2009ء سے تحقیقی عمل جاری ہے۔ اس ریسرچ میںکل 63 ماہرین فلکیات اور ایسٹروفزکس کے ماہرین شریک تھے۔
اس نقشے کے بارے میں کیمبر ج یونیورسٹی کے جارج ایفسٹیتھیو کاکہنا تھا کہ سی ایم بی وہ مدھم روشنی ہے جو اُس وقت خلا کی وسعتوں میں پھیل گئی تھی جب کائنات معرض ِوجود میں آئی تھی اور اس حد تک ٹھنڈی ہوگئی تھی کہ ہائیڈروجن کے ایٹموں کو بننے کا موقع بآسانی مل سکتا تھا ۔ کائنات کو تخلیق ہوئے 3لاکھ 80 ہزار سال ہوچکے ہیں ۔حیران کن بات یہ ہے کہ وہ روشنی اب بھی کائنات کے تمام حصوں سے تقریباً یکساں مقدار میں زمین تک پہنچ رہی ہے اور اسے مائیکرو ویو فریکوئنسی میں دیکھا جا سکتا ہے ۔
اس کا در جۂ حرارت منفی 270.45 سینٹی گر یڈ ہے ،البتہ خلا کے مختلف حصوں سے آنے والے اس سگنل کے اندر انتہائی معمولی فرق بھی ہوتا ہے ۔یہ فرق اس نئے نقشے پر دھبوں کی شکل میں نظر آتا ہے۔سائنس دانوں کے مطابق یہ دھبے دراصل کا ئنات کے اندر موجود مادّے کی کثافت میں فرق کو ظاہر کرتے ہیں ۔ ان دھبوں نے بعد میں کہکشائوں اور ستاروں کی شکل اختیار کرلی تھی ۔ایک اندازے کے مطابق کائنات ابتدا میں بے انتہا گرم اور مختصر جگہ پر محدود تھی اور بعد میں پھیل کر ٹھنڈی ہوگئی ۔
اس نقشے کو تیار کرنے کے لیے کئی جدید تیکنیکی آلات استعمال کیے گئے ۔ماہرین نے ان آلات کی مدد سےایسے پچاس ہزار سیاروں اور سیارچوں کا بھی مطالعہ کیا،جن سے بہت زیادہ ریڈیائی لہروں کا اخراج ہورہاتھا ۔ان سیارچوں کی لہریں زمین کی جانب کائنات میں پھیلے ہائیڈروجن گیس کے گہرے بادلوں کو چیرتی ہوئی گزررہی ہیں ۔
اسی تحقیق کے حوالے سے چند سال قابل ایک حیرت انگیز انکشاف کیا گیا کہ کائنات کا جو نیا نقشہ تیا ر کیا گیا تھا ،اس سے پتہ چلا ہے کہ یہاں 3 لاکھ نئی کہکشائیں بھی موجود ہیں اور ایک کہکشاں میں کتنے ستارے ہوتے ہیں ،اس تعداد کو ابھی تک صحیح طرح معلوم نہیں کیا گیا ہے ۔ماہرین فلکیات کے مطابق ہمارے نظام شمسی میں صرف سورج ایک ستارہ ہےا ور باقی زمین ،چاند اور دیگر سب سیارے ہیں جو کسی نہ کسی نظام ِشمسی کے تابع ہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق کائنات کے بارے میں ہمیں جتنا علم ہے وہ اس سے کئی گنا بڑی ہے ۔
سائنس دانوں کی بین الاقوامی ٹیم خلا کی وسعتوں کا ازسر نو مشاہدہ کر رہی ہے ۔ماہرین کے مطابق نئے مشاہدے کے ذریعے کائنات کے گہرے ترین رازوں پرسے پردہ اٹھ رہا ہے ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں بلیک ہولز پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔ان بلیک ہولزکے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ یہ کسی نئی دنیا میں داخلے کے دروازے ہیں۔اس حوالے سے ابھی مزید تحقیق ہونی ہے ،جس میں18 ملکوں سے 2 سو سے زائدماہرین فلکیات حصہ لیں گے۔پیرس کی خلائی آبزرویٹری یارصد گاہ سے ریڈیو ٹیلی اسکوپ پر کم فریکوئنسی سے جو تصاویر حاصل کی گئی ہیں ،ان میں سپر میسو بلیک ہولز کی نشان دہی بھی ہوتی ہے ۔
یونیورسٹی آف ہیمبرگ کی اسکالر ایمٹڈاولبرکے مطابق جدید ترین طریقے سے ماہرین ان ریڈیائی لہروں کے ذریعے نہ نظر آنے والے اجسام کے بارے میں بھی آگاہی حاصل کر سکتے ہیں ۔روشنی کے یہ نئے ذرائع ماہرین کے لیے تحقیق کےنئے دروازے کھولنے کا باعث بنیں گے ۔سائنس دانوں کاکہنا ہے کہ بلیک ہولز کے بارے یہ معلومات بھی حاصل کی جائیںگی کہ ان کےبننے کی وجوہات کیاہیں ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بلیک ہولز کے بننے اور معدوم ہونے کا عمل لاکھوں برس پر محیط ہے ۔لہٰذا فی الحال ان کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی ۔اس پر ماہرین مزید تحقیق کررہے ہیں اور انہیں اُمید ہے کہ وہ اس حوالے بہت جلد مزید معلومات حاصل کر سکیں گے۔