یہ سرزنش بالکل برمحل ہے ۔ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم عمران خان کو آرمی پبلک اسکول کیس میں طلب کیا ۔ 2014ء کو تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور کے بہت سے بچوں کو شہید کردیا تھا۔ فوج نے دہشت گردوں کا تعاقب کیا، کچھ کو پکڑا اور پھانسی پر لٹکا دیا لیکن یہ سرگرمی دہشت گردوں کے گھناؤنے جرم کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ اس سے سوگوار والدین کے غم کا مداوا نہ ہوسکا۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والے بچوں کا غم آج بھی تازہ ہے۔ ہم سب والدین ہیں اور ان غریب والدین کو کیسا محسوس ہورہا ہوگا اس کا ہمیں بخوبی اندازہ ہے۔ اس سانحے پر آنسو بہائے گئے ، لیکن آنسوئوں سے خون کے دھبے نہیں دھلتےاور پھر آنکھیں خشک بھی تو ہوجاتی ہیں۔ جو آنسو آنکھوں سے نہیں بہتے، وہ روح کوقطرہ قطرہ گھائل کرتے اپنے ساتھ بہالے جاتے ہیں۔کوئی سزا یاکوئی تلافی ان بچوں کو واپس نہیں لاسکتی۔ ہم سب دکھی والدین کے غم میں شریک ہی ہوسکتے ہیں۔
لیکن ہم عوام ہیں۔ ریاست کہاں ہے؟ ریاست جذبات سے عاری کوئی غیر مرئی وجود نہیں ۔ یہ ان لوگوں کا مجموعہ ہے جو اس میں آباد ہیں۔ اور یقین کرنا چاہیے کہ ریاست سے باہر دوسرے ممالک میں بہت سے ہمدرد لوگ بھی ہمارے غم میں شریک ہیں۔ حکومت نے حسب معمول انکوائری کمیٹیاں قائم کیں اور رپورٹ طلب کی۔ اور رپورٹ مل بھی گئی ہوگی۔ کسی سمت انگلیاں بھی اٹھی تھیں۔ لوگوں اور اداروں کے نام لیے گئے تھے لیکن حقیقت میں حکومت کی مرضی کارروائی کرنے کی نہیں تھی، اس لیے معاملہ التوا میں ڈالا جاتا رہا۔ جب عمران خان وزیر اعظم بنے تو ہم نے سوچا کہ حالات بدل جائیں گے لیکن لوگوں کا ضمیر اس وقت جاگا جب انہوں نے اعلان کیا کہ وہ دہشت گردوں سے مذاکرات کریں گے اور ایسا معاہدہ کریں گے جس سے دوبارہ ایسے قتل عام کو روکا جاسکے گا۔ خاص طور پر والدین نے اس پر مخصوص ردعمل کا اظہار کیا۔ سپریم کورٹ ، جو اس کیس سے پہلے ہی آگاہ تھی، نے وزیراعظم عمران خان کو 10 نومبر کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ یہ پیشی چند گھنٹوںکے نوٹس پر تھی۔ عمران نے سمجھ داری سے کام لیا اور پوچھے گئے سوالات کے جواب دینے کے لیے سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ یہ ایک اچھی مثال ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کو وہ عزت دی جس کی وہ حق دار ہے۔
لیکن پھر سپریم کورٹ نے وہ بات پوچھ لی جو پاکستان میں کسی انقلاب سے کم نہیں۔ اس نے وزیر اعظم عمران خان سے استفسار کیاکہ انہوں نے وزیراعظم بننے کے بعد کیوں کارروائی نہیں کی ؟بلکہ اب دہشت گردوں کو مذاکرات کی میز پر مدعو کیوںکیا جارہا ہے؟ ایک نڈر جج نے چبھتے ہوئے ریمارکس دیئے، ’’کیا ہم ایک بار پھر ہتھیار ڈالنے جارہے ہیں؟‘‘ اس تبصرے نے ماضی میں ہتھیارڈالنے کا زخم ہرا کردیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسکول آرمی کا تھا اور وہاں کے بچے زیادہ تر فوجی اہل کاروں کے ہی تھے۔ اسکول اور اس کے بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانافوج کی ذمہ داری ہونی چاہیے اور ہے۔ یقیناً اس میں کچھ کمی رہ گئی تھی۔ کے پی کی صوبائی حکومت نے اس وقت اپنے بس میں جو ہوسکتا تھا، سب کچھ کیا لیکن وہ کافی نہیں تھا۔ ’’مٹی پائو‘‘ محاورے کو پاکستان کی حکومتوں نے ایک فن کے طور پر اپنا رکھا ہے۔ افسوس کہ ہم پورے ملک کا کورٹ مارشل نہیں کر سکتے۔ کسی کو شاید ہنگامے کی توقع ہوگی۔ تو آئیے حقیقت پسند بنیں۔ سپریم کورٹ سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ پاکستانی معاشرے سے کہے کہ اگروہ اور کچھ نہیں کرسکتا تو کم از کم شرمسار ہی ہوجائے کہ اتنے اہم معاملے پر ابہام کی گرد ڈال دی گئی ۔ اسے التوا میں ڈالا جاتا رہا۔ معاملہ اتنا سنگین تھا کہ چاہے جہاز ڈوبنے کا خدشہ ہی کیوں نہ ہوتا، اس کے پیچھے چھپے ہاتھ کو بے نقاب ضرور کیا جاتا ۔ آسمان کو گرنا ہے تو گر جائے ۔ دراصل سپریم کورٹ بذات خود بھی کٹہرے میں کھڑی تھی، لیکن اب اس نے کامیابی سے قدم آگے بڑھا لیا ہے ۔ سچ کہوں تو عمران خان بھی کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ فیصلہ اس بات پرنہیں ہونا کہ وہ کیا کہتے ہیں ، بلکہ دیکھنایہ ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں ۔ معاوضے کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرنی چاہیے کیونکہ بچوں کے قتل کا کوئی معاوضہ نہیں ہے۔ قیمتی انسانی جان کی کیا قیمت؟ قتل عام کے بعد تمام والدین کا ایک حصہ بھی مر گیا ہوگا۔ اس کا معاوضہ کیا ہے؟ اور ہاں فوج اپنے اداروں اور عوام کی حفاظت کی پوری اور فعال ذمہ داری لے۔ سپریم کورٹ کو مبارک باد دی جانی چاہیے کہ اس نے اپنی ساکھ کافی حد تک بحال کرلی ۔ لوگوں نے اس کا دوبارہ احترام کرنا شروع کردیا۔ کوئی عمران خان اور ان کی حکومت کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا لیکن امید ہے کہ وہ سبق سیکھیں گے کہ اقتدار میں آنے کا مطلب ہر طرف سے مطمئن ہوکر بیٹھ جانانہیں ہوتا۔ نیز اسے ان دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں بھی اپنے خیال پر نظر ثانی کرنی چاہیے جن کے ہاتھ ہزاروں پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی دہشت گردی کو کبھی نہیں روکیں گے خاص طور پر اب جب کہ افغان طالبان کی فتح کے بعد ان کے حوصلے بلند ہیں اور وہ محسوس کر تے ہیں کہ وہ پاکستان میں بھی اس کامیابی کو دہرا سکتے ہیں۔ ہم ایک خطرناک دور سے گزر رہے ہیں ۔ اسکے خطرات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ہمیں سمجھ داری اور حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اس خون آشام بلا کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کرنا ہوگا۔