• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب ساٹھ کی دہائی میں جنوبی کوریا پاکستان پر رشک کرتے ہوئے کہتا تھا کہ وہ پاکستان بن کر دکھائے گا ان دنوں پاکستان کی فلم انڈسٹری بھی جوبن پر تھی۔ سال میں کئی سو فلمیں بنتی تھیں اور ہر جمعے کو کئی کئی فلموں کا افتتاح ہوتا تھا۔ اسّی کی دہائی سے یونہی بنیاد پرستی کا سیلاب آیا تو جہاں اور بہت کچھ بہہ گیا وہیں فلم انڈسٹری بھی خس وخاشاک ہو گئی۔ سینماوٴں کی جگہ بڑے بڑے پلازے بن گئے اور لاہور میں فلمی دنیا کا مرکز لکشمی چوک خوردونوش تک محدود ہو گیا۔ اب ایک حوصلہ افزاء مگر غیر مصدقہ خبر کے مطابق وزیر اعلیٰ جناب شہباز شریف نے جناب شعیب بن عزیز کے زیر نگرانی ایک کمیٹی بنائی ہے جو فلمی صنعت کی بحالی کے لئے کام کرے گی۔ کاش یہ خبر سچ ہو اور اگر ایسا نہیں ہے تو ایسی کمیٹی ضرور بننا چاہئے کیونکہ استعارتاً فلم انڈسٹری کی بحالی اس بات کا ثبوت ہو گا کہ پاکستان ایک ”نارمل“ ملک بن گیا ہے اور وہ راہ مستقیم پر چل پڑا ہے۔
بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کی مارکیٹ اتنی بڑی ہے کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ہمارے خیال میں یہ نقطہ نظر کئی پہلوؤں سے غلط ہے۔ پاکستان میں 1965ء سے پہلے ہندوستانی فلم سینماوٴں میں دکھائی جاتی تھی لیکن اس کے باوجود پاکستان میں اسی زمانے میں بہت سی معرکة الآرا فلمیں بنیں اور انہوں نے بہت سا کاروبار بھی کیا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پاکستان (مغربی) کی آبادی محض پانچ کروڑ تھی ، اس کے شہر اور قصبے چھوٹے اور اس کا درمیانہ طبقہ محدود تھا۔ اب پاکستان کی آبادی بیس کروڑ تک پہنچنے والی ہے اس کے کئی شہروں کی آبادی لاکھوں میں ہے اور اس کا درمیانہ طبقہ کروڑوں میں ہے یعنی اب ہر طرح کے تفریحی میڈیا کی مارکیٹ پہلے سے دس گنا بڑی ہے، اس لئے ایسی کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کامیاب نہ ہو سکے۔تارکین وطن بالخصوص امریکہ اور کینیڈا بالی وڈ کی مارکیٹ کا بہت بڑا حصہ ہیں ۔ ہندوستانی میڈیا میں یہ عام خیال ہے کہ بالی وڈ کی کامیاب فلمیں ہندوستان کے اندر محض فلم کے اخراجات پورے کرتی ہیں جبکہ تماتر منافع تارکین وطن کے سینماوٴں سے آتا ہے۔ چونکہ تارکین وطن (شمالی امریکہ میں) میں پنجابی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں اس لئے تقریباً ہر بالی وڈ فلم میں پنجابی گانا یا کیریکٹر ڈالا جاتا ہے مثلاً زمانہ حاضر کی دو کامیاب ترین فلموں ”جب وی میٹ“ اور ”لو آج کل“ میں ہیرو ئین یا ہیرو پنجابی ہیں۔ اگر اس پہلو کو مد نظر رکھا جائے تو پاکستان کی پنجابی فلم کو برتری حاصل ہو سکتی ہے اور وہ تارکین وطن میں بالی وڈ فلموں کا اچھا خاصا مقابلہ کر سکتی ہے۔ساٹھ کی دہائی میں جب فلمی صنعت کا عروج تھا تو ایک زمانے میں لالی وڈ میں پنجابی فلموں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی تھی۔ اگرچہ اردو فلم بھی اپنے جوہر دکھا رہی تھی لیکن پنجابی فلمیں کاروباری پہلو سے زیادہ کامیاب تھیں۔ اب بھی اگر فلم انڈسٹری کا احیاء ہو تو پاکستان کو پنجابی فلم میں فطری برتری حاصل ہوگی اور بالی وڈ اس کا مقابلہ نہیں کر پائے گی۔ اس وقت پاکستان میں پشتو فلم بہت کامیاب ہے حالانکہ اس کی مارکیٹ اردو اور پنجابی فلم سے کہیں چھوٹی ہے۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ پشتو فلم کا بالی وڈ سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ اگر بالی وڈکی یلغار کے باوجود پشتو فلم پھل پھول سکتی ہے تو پھر پنجابی اور اردو فلم کیوں نہیں؟
لاہور کی فلم انڈسٹری یعنی لالی وڈ کا تاریخ میں ایک اپنا مقام رہا ہے۔ تقسیم ہندوستان سے بہت پہلے بمبئی کی فلم انڈسٹری یعنی بالی وڈ بہت بڑی تھی لیکن اس کے باوجود لاہور میں فلم انڈسٹری کو فروغ ملا۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ لاہور کی انڈسٹری میں شروع کی فلمیں بنگالی اور مارواڑی سرمایہ کاروں نے بنائیں۔ آخر ان سرمایہ داروں کو لاہور کی انڈسٹری میں کچھ نظر آیا ہی ہوگا تو انہوں نے سیکڑوں میل دور سے آکر پنجابی اور اردو فلموں میں سرمایہ کاری کی۔ تب تو خیر مسلمان سرمایہ کاروں کا تصور بھی محال تھا لیکن اب تو پاکستان میں سرمایہ ہر طرف پھیلا ہوا ہے اور وہ منافع کے مواقع ڈھونڈ رہا ہے۔ لاہور میں فلمی صنعت کا احیاء بہت سے سرمایہ کاروں کو یہ مواقع فراہم کر سکتا ہے۔ فلم کی کامیابی میں بہت بڑے سرمائے کے کردار سے کوئی انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر غور کیا جائے تو فلم ایک ایسا آرٹ ہے جو انسانی ذہانت پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔ اچھی فلمیں کم سرمائے سے بھی بن سکتی ہیں مثلاً پچھلے ایک دوسالوں میں سب سے زیادہ کاروبار کرنے والی فلم ”تھری ایڈیٹس“ تھی۔ اگر اس دلچسپ اور من موہنی فلم کو دیکھا جائے تو یہ ایک سادہ سی فلم ہے جس میں نہ تو بڑے بڑے سیٹ ہیں اور نہ ہی مہنگے گانوں کی بھرمار ہے لہذا اگر پاکستان میں فلم کا احیاء ہو اور ذہین فنکار اس کی طرف متوجہ ہوں توکوئی وجہ نہیں کہ لالی وڈ میں منافع بخش کامیاب فلمیں نہ بنائی جاسکیں۔ آخر ایک دور میں پاکستان کے ٹی وی سیریلوں نے ہندوستانی ناظرین میں مقبولیت حاصل کی ہی تھی۔ ہمارے خیال میں اگر لالی وڈ فلم انڈسٹری اپنے پاوٴں پر کھڑی ہو جائے تو آج بھی شاید بہت سے ہندوستانی سرمایہ کار اس طرف متوجہ ہوں گے اور اب اس دور میں جب فاصلے سمٹ گئے ہیں تو بہت سی بالی وڈ کی فلمیں یا ان کے بہت سے حصے لالی وڈ میں بھی فلمائے جا سکتے ہیں۔ سنا گیا ہے کہ درپردہ یہ کام پہلے بھی ہورہا ہے لیکن اگر لاہور میں اسٹوڈیوز پہلے کی طرح آباد ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ بالی وڈ کے بہت سے فلمساز لالی وڈ میں کم اخراجات کی وجہ سے متوجہ نہ ہوں۔حکومت کے محدود ذرائع کے بارے میں کسی کو کوئی غلط فہمی نہیں ہے لیکن فلم انڈسٹری کے احیاء کے لئے ایسی تراکیب سوچی جا سکتی ہیں کہ حکومت کو سبسڈی نہ دینی پڑے۔ ہمارے خیال میں اس صنعت کی بحالی کیلئے حکومت کو اس وقت پاکستانی سینماوٴں اور ٹکٹوں پر ٹیکس کی چھوٹ دینا چاہئے۔ اسی طرح نئے سینما اور اسٹوڈیوز بنانے والوں کو فی الحال ٹیکسوں سے آزاد کر دینا چاہئے۔ اس طرح سے حکومت کو خود کچھ دینا نہیں پڑے گا فقط اسے ممکنہ آمدنی (جس کا ابھی وجود ہی مختصر ہے) سے کچھ عرصے کیلئے دستبردار ہونا پڑے گا۔ جب ایک مرتبہ یہ صنعت بحال ہو جائے تو ہندوستان کی طرح اس پر مناسب ٹیکس عائد کردیئے جائیں۔
تازہ ترین