پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ مجھے ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا کہ مجھے کیوں جیل میں ڈالا گیا، میرا کیا قصور تھا؟ آمدن سے زائد اثاثے خود ڈھونڈ رہا تھا مجھے مل جائیں تو سب حکومت کو دے دوں گا خود ایک فیصد رکھوں گا۔
جیو نیوز کے پروگرام ’ایک دن جیو کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت مجھے سیاست سے آؤٹ کرنا چاہتی تھی، اس لیے حراست میں رکھا، اگر میں جیل سے باہر ہوتا تو پوری کوشش کرتا کہ اپوزیشن کا اتحاد نہ ٹوٹے، جب بھی کوئی اتحاد ٹوٹتا ہے اس کا نقصان جماعتوں کو کم ملک کو زیادہ ہوتا ہے۔
خورشید شاہ نے کہا کہ اپنے دور میں نیب قوانین پر اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی، اس وقت معلوم نہیں اپوزیشن نیب قوانین میں ترامیم سے کیوں پیچھے ہٹی۔
پی پی رہنما نے کہا کہ میاں صاحب کی حکومت میں بھی ہم نے نیب قوانین میں ترامیم پر بات کی، ن لیگ کی حکومت نیب قوانین میں ترامیم پر راضی ہوئی اور کمیٹی بنی، کمیٹی بننے کے بعد اچانک کچھ لوگوں نے نیب قوانین میں ترامیم کی مخالفت کی، کچھ لوگوں نے میاں صاحب کو قائل کیا کہ نیب قوانین میں ترامیم نہیں کریں۔
خورشید شاہ نے کہا کہ جیل میں پہلی بار نہیں گیا، پرویز مشرف کے دور میں بھی جیل کاٹی، پہلے جیل کے پیچھے مارشل لاء ہوتے تھے اس لیے تکلیف نہیں ہوتی تھی، اب جیل میں تکلیف اس لیے ہوئی کہ اس وقت ملک میں جمہوری حکومت ہے۔
انہوں نے کہا کہ جیل سیکھنے اور سوچنے کی جگہ ہے، حراست میں بہت سی کتابیں پڑھتا تھا۔
ملکی خارجہ پالیسی پر بات کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ ملک کی اس وقت کی خارجہ پالیسی کمزور ترین پالیسی ہے۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کو پہلے اپنا گھر مضبوط کرنا چاہیے، جمہوری طریقے سے حکومت کو گھر بھیجنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
پی پی رہنما نے کہا کہ سینیٹ اور پنجاب کی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کا چانس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کو آزادی سے کام کرنے دیا جائے، سیاست دانوں سے زیادہ دباؤ میڈیا نے برداشت کیا۔