• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی مجھے ایک بات بتائے۔ پاکستان کے اخباروں میں یہ جو خبریں چھپتی ہیں کیا یہ صحیح ہوتی ہیں؟ یہ جو چھوٹے بڑے واقعات بیان کئے جاتے ہیں، کیا یہ سب حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں؟ علاقے کے بااثر شخص نے کیا ظلم کیا اور اس پر پولیس نے اسے کیسی شاباشی دی، کیا اس کا احوال من گھڑت نہیں ہوتا؟ مثال کے طور پر ایک خبر پڑھی جو سائز کے اعتبار سے چھوٹی سی، لیکن انسانیت کے پیمانے پر ہمالیہ جتنی تھی۔ یہی کہ علاقے کے ایک بااثر شخص یا اس کے مست ہاتھی کی طرح جھومتے ہوئے صاحبزادے نے کسی غریب کی نو عمر لڑکی پر خونخوار وحشی کی طرح مظالم توڑے، نو مہینے بعد لڑکی کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ اس کے بعد جو ہوا ، دل سے ایک ہی صدا نکلتی ہے کہ خدا کرے وہ جھوٹ ہو۔ اخبار میں لکھا ہے، الله کرے غلط لکھا ہو مگر لکھا ہے کہ وہ درندہ علاقے میں سینہ تانے گھوم رہا ہے اور لڑکی کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ لکھا ہے کہ پولیس نے لڑکی پر ناجائز بچہ پیدا کرنے کی دفعہ لگا کر مقدمہ قائم کر دیا ہے۔
میں نہیں مانتا۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ رپورٹر جھوٹا ہے۔ اس نے کسی بااثر شخص سے کوئی حساب چکانے کے لئے یہ خبر دل سے گھڑ دی ہے یا کسی نے پرانی دشمنی کا بدلہ لینے کے لئے رپورٹر کو گمراہ کیا ہے اور اس کے ہاتھوں اخبار کو یہ خبر بھجوائی ہے مگر اس دل کا کیا کروں جو مسلسل کہے جا رہا ہے کہ خبر صحیح ہے۔ وہ یوں ہی نہیں کہہ رہا ہے، وہ اس لئے کہہ رہا ہے کہ ہر دوسرے تیسرے دن کسی نہ کسی اخبار میں قریب قریب اسی مضمون کی خبر ضرور شائع ہوتی ہے ۔ایک بار میں نے اسی علاقے کے ایک پرانے باشندے سے کہا کہ آپ کے ہاں کوئی بااثر شخص ناراض ہوجائے تو عورتوں کو برہنہ کر کے علاقے میں ان کا جلوس نکالتا ہے؟ میرا خیال تھا کہ یہ بات سن کر سخت برہم ہوں گے اور کہیں گے کہ آپ کیسی واہی تباہی پر یقین کر لیتے ہیں مگر ان کا جواب مختلف تھا۔ کہنے لگے کہ یہ سب تو صدیوں سے ہوتا چلا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ میں نے چپ ہو کر گردن ڈال دی۔ مجھے بے نظیر کے دور کی وہ پارلیمانی بحث یاد آگئی جس میں کسی بھولے شخص نے یہ تجویز پیش کر دی تھی کہ خواتین پر ہونے والے مظالم بند کرائے جائیں۔ لوگ آگ بگولہ ہو گئے اور قریب تھا کہ تجویز پیش کرنے والے کا منہ نوچ لیں۔ ایوان میں ببانگ دہل اعلان کیا گیا کہ یہ ہمارے باپ دادا کی قائم کی ہوئی رسمیں ہیں، آپ اپنے کام سے کام رکھیں اور خبردار جو ہماری ریت رسم کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا۔ تجویز پیش کرنے والے نے بھی میری طرح چپ ہو کر گردن ڈال دی ورنہ یہ خیال ہو چلا تھا کہ پنچایت کے حکم پر عورتوں کو زندہ گاڑنے یا ان پر کتّے چھوڑنے یا ان کو سنگسار کرنے کی رسم محترمہ کے مبارک دور میں اپنے انجام کو پہنچے گی۔اس پر یاد آیا، کیا خاک یاد آیا، کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ ذہن کا وہ خانہ اب بند ہی ہو جائے جو باتوں کو یاد رکھتا ہے۔ کوئی ایسا کرے کہ چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔ مگر اس سفید پوش خاتون کی تصویر ذہن سے مٹنے کا نام نہیں لیتی جس کی خون میں نہائی ہوئی لاش زمین پر پڑی تھی، اس کو اس کے عزیز واقارب نے پتھر مار مار کر ہلاک کیا تھا۔ اب اس کا قصور بھی سن لیجئے۔ اس کے پاس موبائل فون تھا، خبر یہاں ختم نہیں ہوتی۔ باقی خبر یہ ہے کہ پولیس نے نگاہیں پھیر لی ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
شہر گوجرانوالہ میں ہمارے ایک دوست ہوا کرتے تھے۔ صنعت کار اور خوش حال تھے مگر دل کا عارضہ تھا۔ڈاکٹر جو ان کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے ایک روز ان سے دیر تک پوچھ گچھ کرنے کے بعد بولے’آپ کے دل کا علاج آسان ہے،آج سے اخبار پڑھنا چھوڑ دیجئے‘۔ انہوں نے یہی کیا۔ ان کی حالت بہتر ہونے لگی، اتنی کہ ہر ایک کو یہی مشورہ دیتے تھے کہ اخبار پڑھنا چھوڑ دو۔ سنا ہے ایک روز کوئی اخبار ان کی نگاہ سے گزر گیا، اگلی صبح وہ خود گزر گئے۔ بے شک سب کو لوٹ کر اُسی کی طرف جاناہے لیکن سب کا خون اخبار کی گردن پر نہ ہو تو کتنا اچھا ہو۔پھر خیال آتا ہے کہ اخبار میں جیسی بھی خبریں چھپتی ہیں، دنیا حالات سے با خبر تو ہو رہی ہے۔ کبھی تو کوئی آئے گا ، کہیں سے کوئی نمودار ہوگا، کچھ نہ کچھ ہوکر رہے گا کیونکہ تاریخ اور کچھ کرے نہ کرے، یہ ضرور ثابت کرتی ہے کہ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو وقت اس کی کلائی توڑ دیتا ہے۔کچھ ہونے کی آس ہی بندھی رہے، یہ بھی کیا کم ہے۔اب ایک ضروری بات۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ دنیا کا سارا ظلم اکٹھا ہوکر پاکستان میں اور پنجاب پولیس کے تھانوں میں جا پہنچا ہے۔ یہ علّت کسی مخصوص علاقے کے ساتھ نہیں، نسل ِانسانی کے ساتھ یوں چمٹی ہوئی ہے کہ دنیا کا کوئی خطّہ اس سے بری نہیں۔ پتہ نہیں کون یہ کہا کرتا تھا کہ انسان جو مہذب نظر آتا ہے یہ دراصل وہ ملمع ہے جو اس نے اپنے اوپر چڑھا رکھا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ذرا سا کھرچ کر دیکھئے تو اس کے اندر ایک درندہ چھپا بیٹھا ہے۔ برطانیہ میں پچھلے دنوں ایک بار پھر ایسا واقعہ ہوا ہے کہ اس کی یاد جب تک رہے گی، انسانیت گردن نہیں اٹھا سکے گی۔
برطانیہ کی ایک عدالت نے ایک مرد اور عورت کو تیس تیس سال قید پختہ کی سزا سنائی ہے۔ ان کا جرم سُنا نہیں جاتا۔ ماں اور سوتیلے باپ نے اپنے چار سال کے بچّے کو اتنی بے رحمی اور شقاوت سے مارا کہ جج کے بقول ، تصور کرنا مشکل ہے۔ پولینڈ سے آکر برطانیہ میں آباد ہونے والے اس ظالم جوڑے نے کمسن ڈینئل کو کم سے کم چھ مہینے بھوکا رکھا اور آخر اتنا مارا کہ وہ مر گیا۔ سزا سناتے ہوئے جج نے کہا کہ ہم نے نو ہفتے تمہارے بھیانک مظالم کی بے حد پریشان کن گواہی سنی اور اس دوران ایک دن بھی تم دونوں کے چہرے پر ندامت کی جھلک تک نظر نہیں آئی۔ جس وقت ڈینئل کی ماں اور سوتیلے باپ کو جیوری کے سارے ارکان نے اتفاقِ رائے سے قاتل قرار دیا، دونوں ایک دوسرے پر ہلاکت کا الزام لگا رہے تھے۔ جیوری کو بتایا گیا کہ کس طرح بچّے کو مسلسل بھوکا رکھا گیا اور اس کے اسکول والے دیکھتے رہے کہ بچّہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بنتا جا رہا ہے۔ سوتیلا باپ اسکول والوں کو بتاتا رہا کہ اس کی آنتوں میں ایسا پیدائشی مرض ہے کہ تم اسے کھانے کو کچھ نہ دینا۔ بچہ بارہا دوسرے بچوں کا کھانا چراتے ہوئے دیکھا گیا۔ کئی بار وہ دوسرے بچوں کا بچا کھچا کھانا اٹھا کر کھاتا ہوا نظر آیا۔ سزا کا حکم سننے کے لئے جیوری کے ارکان کو عدالت میں بلایا گیا اور جب جج نے تیس تیس سال قید کی سزا سناتے ہوئے خاص طور پر ماں کی بے رحمی کے واقعات سنائے تو لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس دوران ماں اور سوتیلا باپ سب کچھ سنتے رہے اور خلا میں گھورتے رہے۔ جج نے کہا ’تم اچھی طرح جانتے تھے کہ بچے کا کیا حشر کررہے ہو لیکن تم دونوں مسلسل جان بوجھ کر ایک سے بڑھ کر ایک جھوٹ بول کر حکام سے اپنی حرکتوں کو چھپاتے رہے تاکہ انہیں جرم کی بو بھی نہ سنگھائی دے اور ان کو ڈینئل کی حالت کا پتہ بھی نہ چلے۔ پچھلے سال 3مارچ کو جس وقت ڈینئل مرا اس کے جسم کا وزن صرف ایک اسٹون اور نو پاؤنڈ رہ گیا تھا۔ اس سے دو دن پہلے سوتیلے باپ نے اس پر حملہ کیا تھا ، پانی میں ڈبویا تھا اور نمک کو زہر کی طرح کھلایا تھا۔ ڈینئل کو مرنے کے لئے یخ بستہ کمرے میں بند کرکے دونوں شراب پیتے رہے اور مزے کرتے رہے۔
اب حکام کی شامت آئی ہے۔ اس جرم کی نوبت کیوں کر آئی۔ بچوں کی نگہداشت پر مامور حکام کہاں سو رہے تھے۔ سارے کے سارے زد میں ہیں اور یقین ہے کہ انگریزی محاورے کے مطابق، کچھ سر ضرور لڑھکیں گے۔
کیسا عجب اتفاق ہے کہ میں نے دسمبر کے وسط میں اپنے کالم میں دکن کی خاتون سارہ ایج کا واقعہ لکھا تھا جنہوں نے اپنے سات سال کے بیٹے کو مار مار کر ہلاک کیا تھا ۔ بچے کا قصور یہ تھا کہ اس کو قرآن حفظ کرنے میں دشواری ہو رہی تھی۔ سارہ نے اپنا جرم چھپانے کے لئے بیٹے کی لاش بستر میں ڈال کر اس میں آگ لگادی تھی لیکن حقیت یہ پتہ چلی کی مرتے وقت بھی بچہ ماں کو سمجھا رہا تھا کہ سارا قصور میرا ہی ہے۔
ان داستانوں میں جو واحد بات سمجھ میں نہیں آتی وہ یہ کہ دنیا میں سب کچھ ممکن ہے، ماں کا اتنا بے رحم ہونا قطعی ناممکن ہے۔ پھر یہ کیا ہو جاتا ہے۔ ہے کسی کے پاس اس کا جواب؟
تازہ ترین