سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ وڈیو نے سیاسی ہلچل مچا دی، عدلیہ کے کردار پر سنگین سوال اُٹھا دیے ہیں لیکن عدلیہ کی طرف سے ابھی تک اس مسئلے پر کوئی سو موٹو نہیں لیا گیا۔ اب اپوزیشن تو کیا، حکومت کے لوگ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ اس معاملے پر انکوائری کرے۔
اگر یہ سازش ہے تو اس سازش کو بےنقاب کیا جائے اور سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ ثابت کیا جائے۔ ثاقب نثار یا عدلیہ کے چند دوسرے ججوں نے اگر کوئی ناانصافی کی، زیر سماعت مقدمات پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کیا تو اُن کا احتساب ہونا چاہیے۔ ابھی تک جو سامنے آ چکا اُس سے عدلیہ کی Reputeپر سوال ضرور کھڑے ہوئے۔
ان معاملات پر نہ تو آنکھیں بند کی جانی چاہئیں، نہ ہی ان کو اس لیے بھلا دینا چاہیے کہ ان الزامات کا تعلق کسی سابق جج سے ہے۔ ابھی تک جو الزامات سامنے آئے ہیں، اُن میں زیادہ تر تو الزام لگانے والے عدلیہ کے اپنے لوگ ہیں۔ یہ معاملات بغیر انکوائری کے حل ہونے والے نہیں۔ بغیر انکوائری کے ان مسائل کو ایسے ہی چھوڑنے کا مقصد ایک نہ ختم ہونے والی بحث اور الزامات کو ہمیشہ کے لیے کھلا چھوڑنے کے مترادف ہے۔
ایک طرف اگر حکومت اس آڈیو کو جھوٹ قرار دینے کی پالیسی پر گامزن ہے تو دوسری طرف ن لیگ اپنی قیادت کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ثبوت کے طور پر آڈیو کو ایک بڑی گواہی کے طور پر عوام کے سامنے پیش کر رہی ہے۔
ایک طرف حکومتی وزراء ثاقب نثار کے دفاع میں یک آواز ہیں اور اس آڈیو کو ن لیگ کی عدلیہ اور فوج کو بدنام کرنے کی سازش قرار دے رہے ہیں تو دوسری طرف اب تو پی ڈی ایم نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ آڈیو اسکینڈل کو لے کر اپنی Campaignچلائے گی۔
اس آڈیو سے بلاشبہ ن لیگ اور اس کے رہنماؤں کے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے بیانیہ کو تقویت ملی لیکن مجھے نہیں معلوم کہ اگر عدلیہ اس مسئلے پر سوموٹو نہیں لے رہی تو ن لیگ کیوں اس معاملے کو سپریم کورٹ لے کر نہیں جا رہی؟ مریم نواز نے بدھ کے روز اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ عدلیہ کو یہ موقع دینا چاہتی ہیں کہ عدلیہ خود آڈیو اور دوسرے ایسے ہی معاملات پر انکوائری کرے اور یہ داغ صاف کرے۔
اُنہوں نے کہا کہ اُن کے ساتھ جو ناانصافی کی گئی اُس بارے میں اُن کے پاس بھی ثبوت موجود ہیں جو اُنہوں نے اپنے وکلاء کے ساتھ شیئر کر رکھے ہیں، کب ان کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا اس بارے میں کوئی بھی فیصلہ اُن کے وکلاء ہی کریں گے لیکن میری رائے میں عدلیہ کے علاوہ اگر کسی کو اس آڈیو اور سابق چیف جج گلگت بلتستان کے Affidavitکے معاملات پر انکوائری کے لیے سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے تو وہ ن لیگ ہے۔
ن لیگ واقعی اگر ان معاملات پر سیاست نہیں کرنا چاہتی تو وٹس ایپ جے آئی ٹی سے لے کر آڈیو لیک تک اُن کے پاس جتنا مواد ہے، اُسے سپریم کورٹ لے کر جائے اور عدلیہ سے درخواست کرے کہ ان معاملات پر انکوائری کی جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔
ویسے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے لیے بھی یہ مناسب ہے کہ وہ اپنے خلاف لگے الزامات کو لے کر سپریم کورٹ جائیں۔ گلگت بلتستان کے چیف جج نے اگر اُن کے خلاف حلف نامہ دیا ہے تو جواب میں اُن کو اپنا حلف نامہ دینا چاہیے۔
اگر اُن کے خلاف ایک جھوٹی آڈیو چلائی گئی تو اُنہیں متعلقہ صحافتی ادارے اور صحافی کے خلاف امریکا میں کیس کرنا چاہیے۔ ایسا کیوں ہے کہ متعلقہ فریقین سب کے سب اس انتظار میں ہیں کہ کوئی دوسرا ایکشن لے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)