• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارا ملک اِس وقت مسائل کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے، سب سے زیادہ مسائل ہمارے بلوچستان کے ہیں، کوئٹہ سے صلاح الدین خلجی صاحب نے اِن مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے، ان کا خط ملاحظہ فرمائیں۔

مکرمی جناب عطاء الحق قاسمی !

آداب! مختلف فورموں پر بلوچستان کے وسائل، مسائل اور ان کے حل کے لئے آواز اٹھاتا رہا ہوں مگر محسوس ہوتا ہے کہ صدا بہ صحرا ثابت ہوئے ہیں۔

اس امید کے ساتھ آپ کے کالم میں حاضر ہوا ہوں کہ یقیناً اربابِ اختیار آپ کا کالم پڑھتے ہیں، ہو سکتا ہے شنوائی ہو جائے۔ جس صوبے سے میں تعلق رکھتا ہوں اس کو پاکستان کا مستقبل کہا جاتا ہے مگر اس صوبے کا بظاہر اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا۔ افغانستان اورایران کے ساتھ 26سو کلو میٹر طویل سرحدی پٹی اور 12سو کلو میٹر طویل ساحلی پٹی ہونے کے باوجود یہ صوبہ جدید تو درکنار روایتی قسم کی سہولیات مثلاً سڑکوں، پانی، بجلی اور تعلیم سے محروم ہے۔ بجائے اس کے کہ صوبے میں خوشحالی اور ترقی ہوتی یہاں بیروزگاری اور معاشی بحران بڑھا ہے جس سے صوبے کی ایک کروڑ آبادی نبردآزما ہے، پورے صوبے میں انڈسٹری یا فیکٹری کے نام پر کوئی چھوٹی کاٹیج یا ونڈو انڈسٹری بھی نہیں ہے۔ سی پیک کے پایہ تکمیل تک پہنچنےمیں ابھی کافی وقت لگے گا۔ اس وقت صوبے میں دو ایسے سیکٹرز ہیں جن پر اگر معمولی توجہ دی جائے تو نہ صرف صوبے کے معاشی تجارتی مسائل حل ہو سکتے ہیں بلکہ وفاق بھی اس مد میں کافی ریونیو جمع کر سکتا ہے۔

صوبے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق پچاس کے قریب معدنیات موجود ہیں جن میں سونے چاندی سے لیکر قیمتی ماربل اونیکس اور گرینائٹ شامل ہیں، جس کی مقدار لاکھوں ٹن میں شمار کی گئی ہے لیکن اس سیکٹر کی طرف کسی بھی وفاقی اور صوبائی حکومت نے توجہ دی اور نہ ہی اس کی سرپرستی کی، مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت روایتی اور فرسودہ مشینری کے استعمال سے اس کام کو آگے بڑھایا ہے لیکن اس طریقہ کار سے نہ صرف قیمتی جانوں، قیمتی وقت اور قیمتی معدنیات کا ضیاع معمول کی بات بن چکا ہے بلکہ بارہا متعلقہ محکموں اور حکومتوں کی توجہ اس بابت مبذول کرائی ہے کہ ان قیمتی معدنیات اور ذخائر کے حوالے سے بین الاقوامی روڈ شوز اور کانفرنسز کروائی جائیں تاکہ دنیا بھر کے سرمایہ کار جو چیز ان ڈائریکٹ عالمی مارکیٹ سے خریدتے ہیں وہ یہی چیز پاکستان اور بلوچستان میں سرمایہ کاری کرکے اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے مائننگ کرکے نہ صرف خود فائدہ اٹھائیں بلکہ صوبے اور ملک کو بھی قیمتی زرمبادلہ تربیت یافتہ ورکرز اور ٹیکس کی مد میں فائدہ اور بچت ہو، اس حوالے سے موجودہ حکومت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا کانسیپٹ متعارف کرایا ہے جس میں بیرونی سرمایہ کار بغیر حکومتی مداخلت کے مقامی مائن اونر یا سرمایہ کار کے ساتھ کام شروع کر سکتا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ متعلقہ ادارے جن میں بورڈ آف انویسٹمنٹ اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا ادارہ شامل ہے جو نہ صرف اپنے کام سے لاتعلق اور لاعلم نظر آتے ہیں بلکہ انویسٹمنٹ اور روڈ شوز کے نام پہ منظور نظر افراد کو مفت میں سیر سپاٹے کراتے ہیں جبکہ یہاں کی مائنز جن کو زندہ قبر کے نام سے پکارا جاتا ہے، ایک غریب کارکن 2ہزار کی دیہاڑی کے لئے 15سو فٹ نیچے جاکر زندگی دائو پر لگاتا ہے اور اکثر جان سے ہاتھ گنوا بیٹھتے ہیں۔

اونیکس جو ایک قیمتی پتھر ہے اوردنیا بھر میں نایاب اور ناپید ہے اور اس کی مائننگ بذریعہ جدید کٹنگ مشین کے ذریعے ہوتی ہے جس کے ذریعے اس کے ٹکڑے بالکل کیک پیس کی شکل میں تیار ہوتے ہیں لیکن بلوچستان کے علاقے چاغی اور دالبندین جو کہ اس کی نرسری ہے وہاں آج بھی روایتی طور پر ڈائنامائٹ بلاسٹنگ کے ذریعے مائننگ کی جاتی ہے جس سے نہ صرف انسانی زندگیاں خطرے میں رہتی بلکہ مال کا ضیاع اور ماحولیاتی آلودگی پھیلنے کا بھی اندیشہ ہے، ماضی میں حکومتِ پاکستان کے ادارے پیسبڈیک نے مقامی مائن اونرز اور لوگوں کو آسان اور سستے شرائط پر قرضے اور جدید مشینری فراہم کی جس سے مائیننگ اور پراسیسنگ میں کافی فائدہ ہوا لیکن بعد میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ ختم کر دیا گیا۔

بلوچستان کے علاقوں خانوزئی اور خضدار سے دنیا کی بہترین کوالٹی کا کرومائٹ دریافت اور نکالا جاتا ہے جب اس کی قیمت بہت اچھی ہوتی ہے تو مائن اونر کو اس کے پچاس ہزار فی ٹن مل جاتے ہیں جبکہ یہی چیز چائنا میں ویلیو ایڈڈ کرکے اس کا فی ٹن سے 6لاکھ روپے تک وصول کیا جاتا ہے۔ اگر پاکستان اپنے شہد سے میٹھے دوست سے درخواست کرے کہ وہ اپنی جدید ٹیکنالوجی بلوچستان میں لگا کر مقامی افراد کو تربیت دے تو یقیناً ملک صوبے اور مقامی آبادی کو اس کی محنت کا بہترین پھل ملے گا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق بلوچستان میں کرومائٹ کروڑوں ٹن کے حساب سے موجود ہے لیکن مقامی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے ریکوڈک منصوبہ جو اگرچہ صوبے کی ملکیت میں ہے لیکن عملاً صوبے کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا الٹا عالمی عدالت انصاف نے اس پر جو جرمانہ عائد کیا وہ 6ارب ڈالر ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اصلی منصوبے کی مالیت کتنی ہو گی آج بھی مختلف ممالک اور کمپنیاں اس منصوبے کو جرمانے سمیت خریدنے کو تیار ہیں، اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں چاہیں تو یہ منصوبہ مقامی طور پر اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر چلا کر یقیناً بیرونی قرضوں کے پہاڑ میں کمی لاسکتی ہے لیکن بات ہے نیت اور ارادے کی۔

قاسمی صاحب لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن آپ کے کالم کے تنگی دامن کا احساس بھی ہے لہٰذا بلوچستان جس میں ساحلی اکانومیبھی شامل ہے اور جسے آج کل کی جدید زبان میں بلیو اکانومی کہا اور پکارا جاتا ہے،اِس کے بارے میں بات کروں گا جس میں ساحلی علاقوں کی پیداوار سی فوڈ بھی شامل ہے جس کی برآمدات سے 2ارب ڈالر کی آمدنی متوقع ہے۔

والسلام: صلاح الدین خلجی

نمائندہ بزنس کمیونٹی کوئٹہ بلوچستان

تازہ ترین