یکم جون 1996کو ایچ ڈی دیوے گوڈا نے ہندوستان کے بارہویں وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تو سیاسی پنڈتوں کو پہلے ہی خدشہ تھا کہ درجن بھر اتحادی جماعتوں کے ملغوبے سے تیار شدہ یہ اتحاد زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ اور ہوا بھی یہی اور یہ حکومت ایک سال سے بھی کم عرصے تک چلی اور بالآخر 21 اپریل 1997 کو ختم ہوگئی۔ گوڈا نے جب حکومت سنبھالی تو اس وقت ملک میں نہ صرف سیاسی غیر یقینی تھی بلکہ معاشی مسائل کا انبار بھی سر اٹھائے ہوئے تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ تمام اتحادی جماعتوں کو یکجا کرکے حکومت چلانا ایک پیچیدہ معاملہ تھا۔ شروع سے ہی مسائل میں گھری ان کی حکومت کو ابھی چند ہی مہینے ہوئے تھے کہ اس وقت لگ بھگ پانچ سال سے چلے آرہے وزیراعظم کے چیف سائنٹفک ایڈوائزر اے پی جے عبدالکلام کو گوڈا حکومت نے اپنے صلاح کاروں کی مخالفت کے باوجود ان کی مدت ملازمت میں مزید تین سال کیلئے توسیع دےدی۔ ان واقعات کا ذکر دیوے گوڈا کی آنے والی سوانح حیات 'Furrows In The Field' جسے مشہور پبلشر پینگوئن رانڈم ہاؤس اس مہینے کے اوآخر یا دسمبر کے اوائل میں شایع کرنے جارہی ہے ،میں کیا گیا ہے۔
اپنی مختصر حکومت کے نویں مہینے میں دیوے گوڈا حکومت کو اچانک ایک نئے مگر خاموش طوفان کا سامنا کرنا پڑا۔ فروری 1997 میں بھارتی اٹامک کمیشن کے سربراہ راجگوپالا چدمبرم، سائنٹفک ایڈوائزر عبدالکلام اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری ستیش چندرا ایک میٹنگ کیلئے گوڈا کے دفتر میں جمع ہوئے اور وزیراعظم کو ان کی منظوری کیلئے ایک انتہائی خفیہ فائل پیش کی جس پر صرف ان کے دستخط کی ضرورت تھی تاکہ ہندوستان ایٹمی دھماکے کرسکے۔ مگر گوڈا نے ایسا کرنے کی صورت میں آنے والی مشکلات کے بارے میں پہلے سے ہی کافی معلومات حاصل کی تھیں۔ اگرچہ وہ ایٹمی دھماکوں کے حق میں تھے مگر وہ اس کیلئے ملکی اور عالمی سطح پر سازگار ماحول کے خواہاں تھے۔ ایک گھنٹے کی اس خفیہ میٹنگ کے دوران ان سائنسدانوں نے گوڈا کو دھماکوں کیلئے قائل کرنے کی کوشش کی مگر وہ ان کا ذہن نہیں بدل سکے۔ گوڈا کے مطابق اگر انھوں نے اس وقت ایٹمی دھماکے کئے تو اس سے ملک کیلئے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ انھوں نے سائنسدانوں کو ان کے کام کیلئےمزید فنڈنگ کی یقین دہانی کرائی مگر دھماکوں کیلئے ایک سال کی مہلت مانگی تاکہ اس دوران ملکی معیشت اور خطے کی صورتحال کو بہتر بنایا جاسکے۔ اس میٹنگ کے صرف دو ماہ بعد اتحادیوں کے سرپھٹول کی وجہ سے گوڈا حکومت ٹوٹ گئی۔
نئے انتخابات کے نتیجے میں ہندو شدت پسند جماعت بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اور اٹل بہاری واجپائی، جنھوں نے بابری مسجد کے انہدام اور اس سے ابھرنے والے مسلم کش فسادات میں مرکزی کردار ادا کیا تھا، وزیراعظم بن گئے۔ واجپائی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے نام پر کئی سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے بننے والی اپنی حکومت کے سر پر ہمہ وقت لٹکنے والی ناپائیداری کی تلوار سے واقف تھے۔ان سیاسی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے ان کو ایٹمی دھماکوں کی سوجھی جو انھوں نے اقتدار میں آنے کے صرف تین ماہ بعد کردکھایا۔ کتاب کے مطابق دھماکوں کے صرف چند دن بعد جب سابق وزیراعظم گوڈا ایوان میں اس مسئلہ پر گفتگو کر رہے تھے تو یہ خبر آئی کہ پاکستان نے بھی جوابی ایٹمی دھماکے کئے ہیں تو سب ممبران مرکزی ہال کی طرف لپکے تاکہ ٹی وی پر پوری خبر سن سکیں۔ گوڈا کے مطابق ’’اس دن پانچ کروڑ پاکستانی اور پچانوے کروڑ بھارتی برابری کی سطح پر آگئے‘‘۔ کتاب کے مصنف سگاتا کے ساتھ بات کرتے ہوئے گوڈا اس وقت کو یاد کرتے ہیں تو واجپائی حکومت پر الزام لگاتے ہیں کہ اس عمل سے نہ صرف بھارت خطے میں اپنی تزویراتی پوزیشن گنوا بیٹھا بلکہ اس کے بعد واجپائی سے کوئی بھی چیز صحیح نہیں ہوسکی۔ پاکستان کے ساتھ آگرہ سمٹ فیل ہوگیا، ملک پر معاشی پابندیاں لگ گئیں اور صرف نو ماہ بعد خود واجپائی کی حکومت ختم ہوگئی۔ پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے گوڈا نے بی جے پی حکومت کو صاف بتایا کہ ’’آپ اپنا بم، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، دکھاکر کشمیر کی باؤنڈری یا نارتھ ایسٹ کے مسائل کو حل نہیں کرسکتے‘‘۔ کتاب میں کشمیر کے حوالے سے بھی ایک مکمل باب ہے جس میں کافی دلچسپ معلومات پیش کی گئی ہیں۔