تھر میں غذائی قلت سے بچوں کی ہلاکت کے کیس میں چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ لوگوں کو تھر میں جانوروں کے طرح مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے، اسپتالوں میں گدھے بندھے ہوئے ہیں، لائٹ تک نہیں ہے، دوا، ایکسرے مشین وغیرہ کی سہولتیں تو خواب ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے سیکریٹری صحت سے کہا کہ تھر میں پینے کا پانی نہیں ہے، اربوں روپے کے آر او پلانٹس لگا دیئے سب فیل ہو گئے، آپ نے کام نہیں کرنا تو کسی اور کو آنے دیں۔
انہوں نے استفسار کیا کہ تھر میں چھوٹے بچے کیوں مرتے ہیں؟ کیا کسی نے تحقیقات کی ہیں؟ میڈیکل آفیسرز کی 75 فیصد اسامیاں خالی ہیں۔
سیکریٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ سندھ پبلک سروس کمیشن فعال نہ ہونے کی وجہ سے تعیناتی نہیں ہو سکی۔
عدالتِ عظمیٰ نے تھر کے اسپتالوں میں تمام خالی اسامیوں پر بھرتی کرنے اور سیکریٹری ہیلتھ کو تھر کا دورہ کرنے کا حکم دے دیا۔